کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گاڑی کی انشورنس کی حرمت اور خنزیر کی حرمت میں فرق ہے یا یکساں ہے؟ اور جب حکومت کے دباؤ سے لینی پڑے، تو کیا ٹیکسی، بس اور پاؤں سے چلانے والی سائیکل کے ہوتے ہوئے کیا اجازت تب بھی ملے گی؟
گاڑی کی انشورنس کی حکومت کے دباؤ پر، کیونکہ بس پر وقت کا ضیاع ہے، ٹیکسی بہت مہنگی ہے، اور پاؤں سے چلانے والی سائیکل زیادہ دور نہیں جاسکتی، اور نوکری والے دباؤ ڈالیں، تو اس وقت لے سکتے ہیں؟ یا نیا ہو گاڑی چلانے میں، اور لگنے کا خطرہ ہو، تو کیا انشورنس لے سکتے ہیں؟اور اگر مرمت کرانے میں دوسرے کی گاڑی پر بہت پیسے لگتے ہوں، اور اگر وقت پر ادا نہ کئے جائیں، تو کیا اجازت ہوگی؟
واضح رہے کہ انشورنس سود اور جوے کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے حرام وناجائز ہے،البتہ صورت مسئولہ میں حکومت کے دباؤ کی وجہ سے گاڑی کی انشورنس کرانے کی گنجائش ہے،البتہ رقم واپس ملتے وقت صرف اپنی جمع شدہ رقم استعمال کرسکتے ہیں ،اس سے زیادہ صدقہ کرنی ہوگی۔لمافي التنزيل العزيز:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا».(سورة البقرة،الآية:275)
وفي المصنف لابن أبي شيبة:
’’حدثنا أبو بكر قال: حدثنا حفص ،عن أشعث ،عن الحكم،عن إبراهيم قال: كل قرض جر منفعة فهو ربا‘‘.(كتاب البيوع والأقضية، باب من كره كل قرض جر منفعة:648/10، رقم الحديث: 21078:المجلس العلمي)
وفي الدر مع الرد:
’’كل قرض جر نفعا حرام ‘‘.
’’قوله:(كل قرض جر نفعا حرام) أي: إذا كان مشروطا‘‘.(كتاب البيوع، مطلب كل قرض جر نفعا حرام:413/7،رشيدية)
وفي الأ شباه والنظائر:
’’الضرر يزال... الضرورات تبيح المحظورات... ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها‘‘.(القاعدة الخامسة: الضرر يزال، ص:95،94: دارالفكر بیروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/22