کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ باہر ممالک سے کپڑا یا کچھ بھی کھانے پینے کی حلال چیز اسمگلنگ کر کے لائیں اس کے پیسے حلال ہوں گے یا حرام؟ جیسے عبایا کا کپڑا، سوٹ، پینٹ، کوٹ کا کپڑا وغیرہ۔
واضح رہے کہ حکومتی قوانین اگر شریعت کے احکامات سے متصادم نہ ہوں تو ان پر عمل کرنا لازم ہے اور ان کی خلاف ورزی کرنا ناجائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں قانون کی خلاف ورزی کر کے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کو داؤ پر لگا کر اسمگلنگ کرنا جائز نہیں، البتہ کاروبار حلال اشیاء کا ہو اور حلال طریقے سے ہو تو اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔لما في التنزیل :
{وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ}.[البقرة: 195]
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا}.[النساء: 59]
وفي الدر المختار:
’’(أمر السلطان إنما ينفذ إذا وافق الشرع)‘‘.
’’قوله:(أمر السلطان إنما ينفذ) أي يتبع ولا تجوز مخالفته وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله أمرك قاض بقطع أو رجم إلخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر وفي ط عن الحموي أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة فلو أمر بصوم وجب اهـ ‘‘.(کتاب القضاء، مطلب طاعة الإمام واجبة: 132/8: رشيدية)
وفي المجلة:
’’ كل يتصرف في ملكه كيف شاء لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال‘‘.(الباب الثالث في بیان المسائل المتعلقة بالحیطان والجیران، في بیان بعض قواعد في أحکام الأملاک، مادة:1192، ص:328: دار ابن حزم ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/42