حلالہ کروانے کے لیے سابقہ شوہر کا دوسرے شوہر سے طلاق کا اقرار کروانا

حلالہ کروانے کے لیے سابقہ شوہر کا دوسرے شوہر سے طلاق کا اقرار کروانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اوراب وہ دوبارہ مل جل کر رہنا چاہتے ہیں، اور وہ آدمی اپنی بیوی کا حلالہ کروانا چاہتا ہے، اب مسئلہ امر یہ ہے کہ جو سابقہ شوہر ہے وہ اس آدمی سے یہ کہتا ہے کہ تو اس بات کا اقرار دے جب تو اس میری سابقہ بیوی سے دخول کرے گا تو اس کو طلاق ہے یا تین طلاقیں ہیں، اب پوچھنا یہ ہے اس آدمی نے جو اقرار کروایا ہے اس آدمی سے یہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

جواب

صورت مسئولہ میں سابقہ شوہر کا دوسرے شوہر سے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اقرار کروانا درست نہیں ہے، البتہ اگر اقرار کیا تو اقرار کرنے کے بعد دوسرا شوہر جیسے ہی دخول کرے گا تو بیوی کو طلاق ہو جائے گی، اور شوہر اول کے لیے دوسرے کی عدت گزارنے کے بعد تجدید نکاح سے حلال ہو جائے گی،البتہ اگر صرف ’’طلاق ہے‘‘ کہا تھا اور تین کی نیت نہیں تھی تو دوسرا شوہر عدت میں رجوع کر سکتا ہے۔
لما في التنوير مع الرد:
’’(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث: لعن الله المحلل والمحلل له (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للاول)‘‘.(كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب حيلة إسقاط عدةالمحلل: 51/5، رشيدية)
وفي الهداية:
’’وإذا تزوجها بشرط التحليل فالنكاح مكروه؛ لقوله عليه الصلاة والسلام لعن الله المحلل والمحلل له، وهذا هو محمله فإن طلقها بعد ما وطئها حلت للأول لوجود الدخول في نكاح صحيح إذاالنكاح لا يبطل بالشرط‘‘.(باب الرجعة: 228/3، البشرى)
وفي البحر الرائق:
’’(وكره بشرط التحليل للأول) أي كره التزوج الثاني بشرط أن يحلها للأول بأن قال تزوجتك على أن أحللك له أو قالت المرأة ذلك‘‘.(كتاب الطلاق، باب الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة: 97/4، رشيدية)
وفي الهداية:
’’وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته إن دخلت الدار فأنت طالق‘‘.(باب الإيمان في الطلاق: 196/3، البشرى).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/201