کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے جب سجدہ کیا، تو اس میں تسبیح پڑھی یا نہیں؟ معتمد کتابوں کی تحقیق مطلوب ہے۔
علامہ فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ تفسیر میں حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے سجدہ کرنے کے متعلق بحث میں فرماتے ہیں:’’أجمع المسلمون علی أن ذلك السجود لیس سجود عبادة؛ لأن سجود العبادۃ لغیرالله کفر‘‘.
تھوڑا آگے چل کر فرماتے ہیں :’’أما القول الثاني فهوأن السجدۃ کانت لآدم عليه السلام تعظیما له وتحية له کالسلام منهم عليه، وقد کانت الأمم السالفة تفعل ذلك کما یحيي المسلمون بعضهم بعضا(أیضا)‘‘.(التفسيرالكبير،سورة البقرة [الآية:34]، 427/1، علوم الإسلامية لاهور)
نیز علامہ سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر روح المعانی میں رقم طراز ہیں :’’ وفيه أن السجود الشرعي عبادة و عبادة غیره سبحانه شرك محرم في جمیع الأدیان و الأزمان ولا أراها حلت في عصر من الأعصار‘‘.(روح المعاني: سورة البقرة[الآية:34]، 108/2، مؤسسة الرسالة)
نیز مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی عام فہم اردو تفسیر میں فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدے کی بحث کے اختتام پر فرماتے ہیں :
’’ خلاصہ یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ اور یوسف علیہ السلام کو ان کے والدین اور بھائیوں کاسجدہ، جو قرآن میں مذکور ہے، وہ سجدہ تعظیمی تھا، جو ان کی شریعت میں سلام، مصافحہ اور دست بوسی کا درجہ رکھتا تھا اور جائز تھا‘‘۔ (معارف القرآن: سورة البقرة،[الآية:34]، 189/1، إدارةمعارف القرآن)
مذکورہ بالا عبارات سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السلام کو کیا جانے والا سجدہ تعظیمی تھا۔ رہا یہ سوال کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے میں فرشتوں نے تسبیح پڑھی کہ نہیں؟ سو اس کی کوئی تصریح تو نہ مل سکی، البتہ مذکورۃ الصدر عبارات کا مقتضاء اور قیاس یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو کیے گئے سجدہ میں تسبیح نہیں ہونی چاہئے، اس لیے کہ تسبیح سے اللہ کی کبریائی اور تکمیل عبادت مقصود ہے اور وہ علت یہاں نہیں پائی جاتی۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/154