حج بدل کس حالت میں جائز ہے اور حج بدل کی نیت وطریقہ

حج بدل کس حالت میں جائز ہے اور حج بدل کی نیت وطریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حج بدل کسی کی طرف سے ادا کرنا جائز ہے یا جائز نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو کن لوگوں کی طرف سے جائز ہے اور کن صورتوں، حالتوں اور موقعوں میں جائز ہے؟ نیز حج بدل کے لیے احرام کہاں سے باندھا جائے گا؟ نیت اور حج بدل کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اسی طرح آیا مردے کی طرف سے حج بدل جائز ہے یا نہیں؟ تمام امور تفصیلا ذکر فرما کر ممنون ومشکور فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔

جواب

حج بدل اس شخص کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے جس پرحج فرض ہوچکا ہو، لیکن وہ کسی ایسے دائمی عذر میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ موت تک خود حج نہیں کر سکتا، تو ایسی صورت میں دوسرا شخص اس کی طرف سے نیابت کے طور پر حج ادا کر سکتا ہے۔
در مختار میں لکھا ہے:’’وتقبل النیابة عند العجز فقط، ولکن بشرط دوام العجز إلی الموت؛ لأنه فرض العمر، حتی تلزم الإعادۃ بزوال العذر‘‘.(238/2) یعنی نیابت بوجہ عذر اور عجز دائمی کے تو جائز ہے، لیکن اگر وہ عذر موت سے پہلے ختم ہوگیاتو دوبارہ حج لازم اور فرض ہوگا۔
نیز حج کرنے والا اصل کی طرف سے نیت کرے گا، جیسے کہ در مختار میں لکھاہے: ’’وبشرط نية الحج عنه، أي عن الأصل، فیقول: أحرمت عن فلان ولبیت عن فلان‘‘.(238/2)
نیز احرام اس مقام سے باندھے گا جہاں سے آمر کہے گا اور اگر اس نے کچھ بھی نہیں کہا، تو پھر میقات سے احرام باندھے گا۔
باقی شرائط اور تفصیلی احکام حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی ’’جواہر الفقہ جلدنمبر1‘‘ میں موجود ہیں، وہاں دیکھ لیا جائے۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:02/03