کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی ایسے مواقع بھی ہیں جہاں پر جھوٹ بولنا جائز ہو؟ اگر ہیں ، تو کیا وہ اس آیت کریمہ کے مصداق میں نہیں آتے جس میں ارشاد باری تعالی ہے،:’’لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ‘‘.
واضح رہے کہ جھوٹ فی نفسہ معصیت ہے، کسی حال میں جائز نہیں،البتہ حدیث شریف میں تین مقامات ایسے ہیں جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تین اشخاص کو کاذب (جھوٹا) شمار نہیں کیالیکن ان مقامات میں بھی کذب سے مراد تعریض (متکلم ایک معنی مراد لیں اور مخاطب کوئی اور معنی سمجھے)ہے کیونکہ صریح کذب ( جھوٹ) جائز نہیں ہے۔ لمافي مشكوة المصابيح:
وعن عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ... ’’وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا‘‘.(كتاب الأدب، رقم الحديث،4824، دار الكتب العلمية بيروت)
وفيه أيضا:
وعن أبي هريرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :’’آية المنافق ثلاث إ ذا حدث كذب وإذا وعد أخلف وإذا اؤتمن خان‘‘.(كتاب الايمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، رقم الحديث،49، دار الكتب العلمية بيروت).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/59