جو شخص نہ روزے رکھ سکتا ہو نہ فدیہ دینے کی استطاعت ہو اس کا حکم

جو  شخص نہ روزے رکھ سکتا ہو نہ فدیہ دینے کی استطاعت ہواس کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہمیری والدہ کے دو مہینے کے روزے باقی ہیں، کیونکہ ایک رمضان میں بچہ کی ولادت کے سبب روزے رہ گئے تھے، اور دوسرے رمضان میں کسی بیماری کے سبب روزے رہ گئے تھے، اور میری والدہ شوگر کی مریض بھی ہے، جس کی وجہ سے وہ روزہ نہیں رکھ سکتی، اور نہ ہی ان کو مالی کمزوری کی وجہ سے فدیہ دینے کی استطاعت ہے۔
مہربانی فرما کر اس مسئلہ کا کوئی حل بتائیں تاکہ انہیں آسانی ہو۔
وضاحت: پوچھنے پر معلوم ہوا کہ  مستفتی کی والدہ محترمہ گھر کا تھوڑا بھی کام کرتی ہیں، تو شوگر گر  جاتی ہے، اور ابھی سردیوں کی موسم میں بھی روزہ نہیں رکھ سکتیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ محترمہ روزے نہیں رکھ سکتیں تو فدیہ دینا لازم ہے، اور اگر فدیہ دینے کی استطاعت بھی نہیں ہے تو توبہ و استغفار کرتی رہیں۔  اگر کسی وقت روزے رکھنے کی طاقت ہوگئی یا فدیہ دینے کی استطاعت حاصل ہوگئی تو روزے رکھنا یا فدیہ دینا لازم ہوگا۔
لما في الشامية:
’’(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبا....لو موسرا وإلا فيستغفر الله هذا إذا كان الصوم أصلا بنفسه وخوطب بأدائه
(قوله: وإلا فيستغفر الله) هذا ذكره في الفتح و البحر عقيب مسألة نذر الأبد إذا اشتغل عن الصوم بالمعيشة‘‘.(كتاب الصوم، فصل في العوارض، 471/3، رشيدية)
وفي مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:
’’والشرط إذا أباح الطعام أن يشبعهم ولو بخبز البر من غير أدم‘‘.(كتاب الصوم، فصل في العوارض، 487/2، دارالكتب،بشاور)
وفيه أيضا:
’’(كمن نذر صوم الأبد فضعف عنه) لاشتغاله بالمعيشة يفطر ويفدي؛ للتيقن لعدم قدرته على القضاء (فإن لم يقدر) من تجوز له الفدية (على الفدية لعسرته يستغفر الله سبحانه ويستقبله) أي يطلب منه العفو عن تقصيره في حقه‘‘.(كتاب الصوم، فصل في العوارض، 472/2، دارالكتب بشاور).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/169