کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جمعہ میں خطبہ کاوقت مقرر ہونا چاہیے یا نماز کا؟ اس لئےکہ اگر نماز کا وقت مقرر ہوگا اور خطبہ کا وقت مقرر نہیں ہوگا، توکبھی خطبہ دیر سے شروع ہوگا اور کبھی جلدی اورجلدی شروع ہونے کی صورت میں کسی کا خطبہ نکل سکتا ہے جس سے وہ جمعہ کے ثواب سے محروم ہوسکتا ہے۔ بینواتوجروا۔
واضح رہے کہ نمازاورخطبہ میں اصل اورفرض وہ جمعہ کی نماز ہےاور خطبہ سننا واجب ہے، جمعہ کی نماز میں اگر امام کو تشہد میں بھی پالے، تو بھی جمعہ کی نماز ہی پوری کرے گا اور خطبہ نہ سننے کا گناہ ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں جمعہ کی نماز کا وقت متعین کیا جائے اور جب نماز کا وقت متعین ہوگا، توخطبہ کا بھی ہو جائے گا، کیونکہ خطبہ نماز کے متصل دیا جاتا ہے۔لمافي الهندية:
’’ومن أدركها في التشهد أو في السجود أتم جمعة‘‘.(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر: 210/1:دارالفكر)
وفي الخانية:
’’الجعة فريضة على الرجال الأحرار العاقلين المقيمين في الأمصار‘‘.(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة: 109/1:دارالفكر)
وفي التنويرمع الدر:
’’( وجمعة كظهر أصلا واستحبابا ) في الزمانين لأنها خلفه‘‘.(كتاب الصلاة، مطلب في طلوع الشمس: 31/2:رشيدية)
وفي التاتارخانية:
’’الشرط الثالث: الوقت، يعني وقت الظهر،حتى لايجوز تقديمها على الزوال ولا بعد خروج الوقت؛ لأن الجمعة أقيمت مقام الظهر،فيشترط ادؤها في وقت الظهر‘‘.(كتاب الصلاة ،الفصل الخامس والعشرون: 557/2:فاروقية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/11