کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کی طرف غصے کی حالت میں تین پتھر پھینکے اور کہا: ’’تو مجھ پر طلاق ہے‘‘، ’’آج کے بعد تو میری بہن ہے‘‘ جبکہ اس کی بیوی کہتی ہے کہ میرے شوھر نے میری طرف ایک پتھرپھینکا اور کہا تجھے ایک طلاق ہو، دوسرا پتھر پھینکا اور کہا تجھے دو طلاق ہو، تیسرا پتھر پھینکا اور کہا تجھے تین طلاق ہو۔ اس کے بعد کہا کہ دنیا وآخرت میں تو میری بہن ہوگئی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں کس کا قول معتبر ہے؟ اور کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟ جبکہ کسی کے پاس شرعی گواہ موجود نہیں ہے۔
وضاحت: مستفتی سےپوچھنے پر معلوم ہوا کہ شوہر کی نیت تین طلاق کی تھی اور ہمارے ہاں تین پتھروں سے طلاق دینے کا رواج ہے۔
صورت مسئولہ میں شوہر کی نیت چونکہ تین طلاق کی تھی، اس لیے بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع یا تجدید نکاح ممکن نہیں، لہذا میاں بیوی پر لازم ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کریں۔ نیز محض پتھر پھینکنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، طلاق کے لیے طلاق کا لفظ صریح یا کنایہ بنیت طلاق کہنا ضروری ہے۔لما في رد المحتار :
’’قالوا: لو ادعت أن زوجها أبانها بثلاث فأنكر فحلفه القاضي فحلف والمرأة تعلم أن الأمر كما قالت لا يسعها المقام معه ولا أن تأخذ من ميراثه شيئا‘‘.(کتاب القضاء:106/8، رشيدية).
وفي الشامية:
’’(سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها) إلا بقتله (لها قتله)...‘‘. ’’قوله: (أنه طلقها ) أي ثلاثا لأن ما دونها يمكن فيه تجديد العقد إلا إذا كان ينكر‘‘.(کتاب الطلاق ،مطلب الإقدام علی النکاح إقرار بمضی المدۃ: 59/5: رشيدية).
وفي الفتاوی التاتارخانية:
’’عن محمد رحمه الله في رجل ادعت عليه امرأته أنه طلقها ثلاثا، وھو یجحد، ثم مات الزوج فجائت المرأة تطلب المیراث قال: ان صدقته المرأة قبل أن یموت وقالت: [صدقت لم تطلقني] ورثته، وإن لم ترجع إلى تصدیقه حتی مات لم ترثه‘‘.(کتاب الطلاق، الفصل التاسع عشر في الشهادۃ في الطلاق والدعوی والخصومة في ذلک: 117/5: فاروقيه کوئته).
وفي الشامية:
’’(صريحة ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسیة
قوله:(ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالبا كما يفيده كلام البحر.
وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية وأراد ب ما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقا كما قدمناه لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر كما مر‘‘. (کتاب الطلاق ،باب الصریح، 443/4،رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/306