تہتر فرقوں سے متعلق تحقیق

تہتر فرقوں سے متعلق تحقیق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائےگی اور تمام کے تمام جہنم میں ہوں گے، سوائے ایک کےاور وہ ما أنا علیہ واصحابی، سوال یہ ہے کہ ان فرقوں میں تمام فرقے ابد الاباد (ہمیشہ ہمیشہ کے لیے) جہنم میں ہوں گے یا ایک وقت معین تک رہیں گے؟اور ان فرقوں کےلئے نبیﷺ سفارش کریں گے یا نہیں؟ خلاصہ سوال یہ ہے کہ تمام فرق کافر ہوں گے یا ان میں سے بعض مسلمان ہوں گے؟ اور وہ فرق ضالہ میں سے ہوں گے؟ اس بارے  میں تفصیل عنایت فرمائیں۔

جواب

سوال میں مذکورہ فرقوں سے متعلق  فقہائے کرام کا راجح قول یہ ہےکہ یہ فرقے اہل قبلہ مسلمان ہوں گے اور یہ تمام فرقے ابد الاباد تک جہنم میں  نہیں رہیں گے، بلکہ اپنی مقررہ سزا پاکر بحکمِ الہی جہنم سے نکال دیے جائیں گے، بشرطیکہ ان کی بدعات اور عقائد کی خرابی نے ان کو کفر کی حد تک نہ پہنچا دیا ہو، اور رہی بات سفارش کی تو ان کےلئے بھی حضورﷺ کی شفاعت وسفارش ادلئہ شرعیہ سے ثابت ہے۔
لما في مرقاة المفاتيح:
’’((وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة)) قيل فيه إشارة لتلك المطابقة مع زيادة هؤلاء في ارتكاب البدع بدرجة، ثم قيل يحتمل أمة الدعوة فيندرج سائر الملل الذين ليسوا على قبلتنا في عدد الثلاث والسبعين ويحتمل أمة الإجابة فيكون الملل الثلاث والسبعون منحصرة في أهل قبلتنا والثاني هو الأظهر ونقل الأبهري أن المراد بالأمة أمة الإجابة عند الأكثر ((كلهم في النار))لأنهم يتعرضون لما يدخلهم النار، فكفارهم مرتكبون ما هو سبب في دخولها المؤبدة عليهم ومبتدعتهم مستحقة لدخولها إلا أن يعفو الله عنهم‘‘.(كتاب الإيمان، باب الإعتصام بالكتاب والسنة:1380، رقم الحديث:171: رشيدية)
وفي سنن الترمذي:
’’عن أنس قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: ((شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي))‘‘.(كتاب صفة القيامة والرقائق والورع، رقم الحديث:2435: دارالسلام للنشر والتوزيع)
وفي شرح الطيبي:
المراد بالأمة من تجمعهم دائرة الدعوة من أهل القبلة ؛ لأنه أضافهم إلى نفسه، وأكثر ماورد في الحديث على هذا الأسلوب فإن المراد منه اهل القبلة...وإذا حمل الملة على  أهل القبلة فمعنى قوله:((كلهم في النار)) أنهم متعرضون لما يدخلهم النار من الأفعال الردية[و] المعنى أنهم يدخلونها بذنوبهم،ثم يخرج منها من لم تفض له بدعته إلى الكفر برحمته‘‘.(كتاب الإيمان، باب الإعتصام بالكتاب والسنة:1368، رقم الحديث:171: دارالكتب العلميةبيروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/01