کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل رواج چلا آرہا ہے کہ لوگ آتے ہیں، میت کے ورثاء کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ ہاتھ اٹھائیں دعاء کرتے ہیں، پھر اس کے تھوڑی دیر بعد میت کے رشتہ دار کہتے ہیں کہ ہاتھ اٹھائیں میت کی تعزیت کے لئے آنے والوں کے لئے دعاء کریں، پھر دعاء کرتے ہیں، پھر تعزیت کے لئے جو آئے ہوے ہیں، جب جانے لگتے ہیں، پھر سارے اجتماعی طور پر دعاء کرتے ہیں، اور رخصتی کی اجازت حاصل کرتے ہیں، کیا شریعت کی روشنی میں یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ نیز شریعت کے مطابق تعزیت کا طریقہ بھی بیان کریں۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ طریقہ ثابت نہیں ہے۔تعزیت کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اہل میت کے پاس جا کر ان کو صبر کی تلقین، ان کے ساتھ اظہار غم خواری اور میت کے لئے دعائے مغفرت کی جائے، بہتر یہ ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ دعا کی جائے:’’إنَّ لِلَّهِ ما أَخَذَ وَلَهُ ما أَعْطَى وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى‘‘.
لمافي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح:
’’وتستحب التعزية للرجال والنساء اللاتي لا يفتن‘‘.
’’(قوله: وتستحب التعزية...إلخ) ويستحب أن يعم بها جميع أقارب الميت إلا أن تكون امرأة شابة وهو المشار إليه بقوله: (اللاتي لا يفتن)... ولا حجر في لفظ التعزية، ومن أحسن ما ورد في ذلك ما روي من تعزيته صلى الله عليه وسلم لإحدى بناته وقد مات لها ولد فقال: إن لله ما أخذو له ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى، أو يقول: عظم الله أجرك وأحسن عزاءك وغفر لميتك، أو نحو ذلك‘‘.(باب أحكام الجنائز، فصل:في حمل الجنازة و دفنها،2/400، دارالكتب بشاور)
وفيه أيضا:
’’(قوله: ولا ينبغي لمن عزى مرة أن يعزي أخرى) وتكره عند القبر، وهي بعد الدفن أفضل؛ لأنهم قبله مشغولون بالتجهيز، ووحشتهم بعد الدفن أكثر، إلا إذا رأى منهم جزعا شديدا فيقدمها لتسكينهم‘‘.(باب أحكام الجنائز، فصل في حمل الجنازة و دفنها، 402/2، دارالكتب بشاور).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/143