کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح میں ختم قرآن یا تکمیل قرآن میں پیسے دینے کا حافظ کو یہ رواج بن چکا ہے اور ضروری سمجھتے ہیں، اسی طرح رمضان کے درمیان یا آخر میں باقاعدہ اعلان یا چندہ کیا جاتا ہے حافظ کے نام پر اور جو بھی جمع ہوتا ہے حافظ کو دیتے ہیں، اور حافظ بھی وہ لیتا ہے یا انفرادی طور پر کوئی مقتدی کچھ پیسے دے دے یا کوئی اور چیز دے دے مثلاً: کپڑا مٹھائی تو شریعت کیا کہتی ہے ان پیسوں کے لینے اور نہ لینے کے بارے میں؟ اگر جواز کی صورتیں ہوں تو ضرور بتائیں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے پیسوں کے بارے میں ضرور بتائیں۔
صورت مسئولہ میں اگر حافظ صاحب نے تراویح میں قرآن پاک سنانے کو اجرت کے ساتھ مشروط کیا ہو یا مشروط نہ کیا ہو، لیکن وہاں تراویح میں قرآن پاک سنانے کے عوض حافظ صاحب کو بطور اجرت کچھ دینا لوگوں میں مشہور ہو، یا اجرت نہ دینے کی صورت میں حافظ صاحب شکوہ شکایت کرے، یا پھر آئندہ کے لیےاسی وجہ سے وہاں پر قرآن مجید نہ سنائے، یا ایسی جگہ کا انتخاب کرے جہاں سے کچھ ملنے کی امید ہو، تو ایسی صورت میں حافظ صاحب کو کچھ دینا اور حافظ صاحب کے لیے لینا جائز نہیں، اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو، تو اگر کوئی اپنی حلال آمدن سے بطیب خاطر بغیر اجتماعی چندہ و التزام کے کچھ دے تو اس کے لینے میں گنجائش ہے۔لما في رد المحتار:
’’وبما في الخانية من أنه يجوز للإمام والمفتي قبول الهدية وإجابة الدعوة الخاصة ثم قال إلا أن يراد بالإمام إمام الجامع.... والأولى في حقهم إن كانت الهدية لأجل ما يحصل منهم من الإفتاء والوعظ والتعليم عدم القبول ليكون علمهم خالصا لله تعالى وإن أهدى إليهم تحبباً وتودداً لعلمهم وصلاحهم فالأولى القبول‘‘.(كتاب القضاء، مطلب في حكم الهدية للمفتي: 57/8: رشيدية)
وفي شرح عقود رسم المفتي:
’’ومن ذلك مسألة الإستئجارعلى تلاوة القرآن المجردة.....فإن المفتى به صحة الإستئجار على تعلىم القرآن لا على تلاوته‘‘.(بحث لزوم المراجعة إلى المأخذ الأصلي إلخ، ص:14: البشرى)
وفي الشامية:
’’واختلفوا في الاستئجار على قراءة القرآن مدة معلومة قال بعضهم: لا يجوز، وقال بعضهم: يجوز وهو المختار اهـ والصواب: أن يقال على تعليم القرآن؛ فإن الخلاف فيه كما علمت لا في القراءة المجردة ؛فإنه لا ضرورة فيها.... قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارىء.... أقول:المفتى به جواز الأخذ استسحانا على تعليم القرآن لا على القراءة المجردة‘‘.(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: 95/9: رشیدیة).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/290