کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، جس کا نام ظاہرہ نسیم ہے، اور یہ نام نکاح نامہ میں بھی تحریر ہے اور میری تمام بول چال میں بھی لیا جاتاہے، پھر اس کے بعد کسی دباؤ کے تحت مجھ سے طلاق کا مطالبہ کیا گیا، تو میں نے نسیمہ نام لے کر طلاق کے الفاظ کہے، جب کہ میری مراد اپنی بیوی نہیں تھی، اور نہ ہی اس کا یہ نام ہے اور نہ ہی تمام بول چال میں اس کا یہ نام پکارا جاتا ہے، تو آیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں اگر صورت واقعہ یہی ہے جو لکھا گیا ہے (والعلم عند اللہ)، تو طلاق نہیں ہوئی جیسا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے امدادالفتاوی میں بزازیہ سے نقل کیا ہے:’’إذا حلفہ إن لا یخرج من مصر، فإن خرج فامرأته عائشة کذا، واسم امرأتہ فاطمة لا تطلق إلخ و کذا لو قال فاطمة الھندانیة کذا و ھي فاطمہ لکنہا لیست الھندانیة لا تطلق‘‘.(بزازیہ في ھامش فتاوی عالمگیریہ:173/4)و(امداد الفتاوی:423/2)
اور اگر نسیمہ کے نام سے اس کو لوگ پکارتے تھے، تو پھر طلاق واقع ہوگی۔فقط۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/114