کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے بیوی کے ساتھ لڑ پڑا، آخر کار کافی غصے میں آکر میں نے بیوی کو طلاق، طلاق، طلاق کا کہا اس میں مجھے یہ علم نہیں کہ میں کیا بولا،کہ یہ میری بیوی مجھ پر طلاق ہے، یا صرف میں نے یہی کہا کہ یہ طلاق طلاق طلاق ہے، مگر دو گواہ ہیں جو یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے صرف یہی کہا ہے، کہ یہ طلاق طلاق طلاق ہے اور نام نہیں لیا، اور غصہ بھی کافی زیادہ تھا یہاں تک کہ میں اپنے گھر والوں سے بھی لڑ پڑتا ہوں، مگر اتنا نہیں کہ بعد میں مجھ سے سب کچھ بھول جاتا ہے، اور اس میں مجھے یہ علم نہیں کہ یہ بیوی طلاق طلاق طلاق ہے یا میں نے یہ کہا کہ یہ بیوی طلاق ہے طلاق ہے طلاق ہے۔
نیز مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ بیوی کو طلاق کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے۔ازراہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
سوال میں ذکرکردہ تفصیل کے مطابق چونکہ آپ اپنی بیوی سے جھگڑ رہے تھے، پھر غصے میں آکر آپ نے اپنی بیوی کو تین دفعہ ’’طلاق، طلاق، طلاق‘‘ کہا ہے، لہٰذا آپ کی بیوی کو تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، آپ کی بیوی آپ پر حرام ہوچکی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے علاوہ دوبارہ نکاح کی اور کوئی صورت نہیں۔
ملاحظہ:آپ نے ’’یہ میری بیوی مجھ پر طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ کہا ہو، یا ’’طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ کہا ہو، بہر صورت حکم پر کوئی فرق نہیں پڑتا، تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔لما في الشامیۃ:
’’ولا یلزم کون الإضافۃ صریحۃ في کلامہ‘‘. (کتاب الطلاق، مطلب سن بوش یقع بہ الرجعي:444/4، رشیدیۃ)
وفي التاتارخانیۃ:
’’رجل قال لامرأتہ: طالق ولم یسم ولہ امرأۃ معروفۃ، طلقت امرأتہ استحسانا‘‘. (کتاب الطلاق، نوع في الإیقاع بطریق الإضمار، وفي ترک الإضافۃ:421/4، فاروقیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/196