کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میری ہمشیرہ اور ان کے شوہر کے درمیان کچھ ناراضگی ہوئی جس کی وجہ سے وہ انہیں والدہ کے گھر یعنی میکے میں چھوڑ کر چلے گئے، یہ فروری 2024 کی بات ہے، ان کا کہنا ہے کہ جون کے مہینے میں میری ہمشیرہ نے اپنے شوہر کو میسج کر کے شادی کی سالگرہ کی مبارکباد دی، اس وقت ان کے شوہر اپنے بھائیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، بھائیوں نے پوچھا کہ کس کا میسج ہے توانہوں نے بتایا کہ اہلیہ نے شادی کی مبارکباد کا میسج کیا ہے، اس پر بھائیوں نے کہا کہ اب اس معاملے کو حل کرو، میرے شوہر نے کہا ’’طلاق، طلاق، طلاق، لو ہو گیا‘‘ بھائیوں نے کہا کہ تم نے طلاق دے دی ہے، ہم تینوں گواہ ہیں تو میرے شوہر کہنے لگے کہ ’’میں نے تو ایسے ہی کہا تھا، میرا ارادہ نہیں تھا‘‘ یہ بات مجھے 10اکتوبر 2024کو ایک رشتہ دار کے ذریعے معلوم ہوئی، آپ حضرات رہنمائی فرمائیں کہ کیا طلاق ہو گئی ہے؟ اور اگرہو گئی ہے تو عدت کے بارے میں کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں آپ کی ہمشیرہ اپنے شوہر پر تین طلاقوں کے ساتھ حرمت مغلظہ کی وجہ سے حرام ہو چکی ہیں، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع یا تجدید نکاح ممکن نہیں۔
جس وقت طلاق دی ہے اس وقت سے عدت کو شمار کیا جائے گا، اور جب تین حیض گزر جائیں گے تو عدت پوری ہو جائی گی بشرطیکہ حمل سے نہ ہو، اگر حمل سے ہو تو وضع حمل تک عدت شمار ہو گی، جیسے ہی وضع حمل ہو جائے تو عدت پوری ہو جائے گی۔لما في رد المحتار:
’’ولا يلزم كون الاضافة صريحة في كلامه لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له من عنيت؟ فقال إمرأتي طلقت امرأته... ؛لان العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها‘‘.(كتاب الطلاق، مطلب سن بوش يقع به الرجعي:444/4، رشیدیة)
وفي البحر الرائق:
’’فلو قال طالق فقيل له من عنيت فقال امرأتي طلقت امرأته‘‘.(كتاب الطلاق، باب الطلاق: 442/3، رشيدية)
وفي التنوير مع الرد:
’’(ومبدأ العدة بعد الطلاق و) بعد (الموت) على الفور(وتنقضي العدة إن جهلت) المرأة (بهما) أي بالطلاق والموت؛ لأنها أجل فلا يشترط العلم بمضيه سواء اعترف بالطلاق أو أنكر‘‘.(كتاب الطلاق، باب العدة: 204/5، رشيدية)
وفي التنوير مع الرد:
’’وهي في حرة تحيض لطلاق أو فسخ بعد الدخول حقيقة أو حكما ثلاث حيض كوامل.... ما لم تكن حاملا‘‘.(كتاب الطلاق، باب العدة: 183/5، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/224