کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا، اس کے ورثاء میں ایک بیوی دو بیٹے رہ گئے، پھر مرحوم کی زوجہ نے دوسرے شخص سے شادی کی، جن سے اس کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، اب ان میں میراث کس طرح تقسیم ہوگی۔
صورت مسئولہ میں میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے سے پہلے مرحوم کے کفن و دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعا ادا ءنہ کئے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی واجب الاداقرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ اداء کئے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لئےکوئی جائز وصیت کی ہو،تو وہ بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کی جائے،پھر بقیہ ترکہ کو مرحوم کے ورثاء کے درمیان شرعی حصص کے مطابق تقسیم کر دیاجائے۔
لہذا مرحومہ کی جائیداد کے کل16 حصے کئے جائیں، جن میں سےبیوہ کو2اورہر بیٹے کو7حصہ دیے جائیں گے۔ البتہ ماں شریک بہنیں محروم ہوں گی۔ فیصدی اعتبار سےبیوہ کو%12.5، ہربیٹے کو%43.75 حصے ملیں گے۔
مزید تفصیل کے لئے درج ذیل نقشہ ملا حظہ فرمائیں:
نمبر شمار | نام | رشتہ | عددی حصہ | فیصدی حصہ |
1 | فاطمہ | بیوہ | 2 | 12.5% |
2 | حسن | بیٹا | 7 | 43.75% |
3 | محمد | بیٹا | 7 | 43.75% |
لما في التنزیل:
«يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ... وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ».(سورة النساء:11،12)
وفي السراجي:
’’والعصبة:كل من يأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض‘‘.(ترتيب تقسيم التركة: ص:16: البشرى)
وفيه أيضا:
’’والثمن مع الولد أو ولد الابن وإن سفل‘‘.(فصل في النساء: ص:32: البشرى).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/120