کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے گاوں میں نیشنل بینک کی ایک برانچ سالوں سے ہے، جس میں لوگ بجلی، گیس کے بل ادا کرتے ہیں، سرکاری ملازمین تنخواہیں اور بوڑھے لوگ پینشن وصول کرتے ہیں، اسی طرح اور بھی جائز معاملات ہیں، مگر ظاہر ہے کہ کچھ سودی مواملات بھی ہوں گے۔ اب بینک کی عمارت خراب ہونے کی وجہ سے کسی اور جگہ منتقل کرنا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس بینک کو کرایہ پر زمین دینا جائز ہے؟جبکہ گاوں والوں کو اس سے سہولت ہے۔
اسی طرح آج کل ہمارے بیشتر معاملات بینک ہی پر موقوف ہیں، کیا ایسی صورت حال میں علی الاطلاق بینک کو کرایہ پر جگہ دینا ناجائز ہے؟ برائے کرم ہماری جلد از جلد راہنمائی فرمائیں، ہمارا معاملہ آپ حضرات کے فتوی پر موقوف ہے، تاکہ ہم شریعت کے موافق حکم پر عمل پیرا ہوں۔
واضح رہے کہ بینک کو کرائے پر جگہ دینا جائز نہیں۔لما في البدائع:
’’أن الذمي إن استأجر دارا من مسلم في المصر فأراد أن يتخذها مصلى للعامة ويضرب فيها بالناقوس(ليس) له ذلك، ولرب الدار وعامة المسلمين أن يمنعوه من ذلك على طريق الحسبة، لما فيه من إحداث شعائر لهم، وفيه تهاون بالمسلمين، واستخفاف بهم؛كما يمنع من إحداث ذلك في دار نفسه في أمصار المسلمين، ولهذا يمنعون من إحداث الكنائس في أمصار المسلمين. قال النبي صلى الله عليه وسلم "لا خصاء في الإسلام ولا كنيسة" أي لا يجوز إخصاء الإنسان ولا إحداث الكنيسة في دار الإسلام في الأمصار....... لأنه استئجار على المعصية‘‘.(كتاب الاجارة، فصل في شرائط الركن: 527/5:رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(و) جاز(إجارة بيت بسواد الكوفة) أي:قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها،وخص سواد الكوفة؛ لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا: لا ينبغي ذلك؛لأنه إعانة على المعصية‘‘.(كتاب الحظروالإباحة، 647/9:رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/35