کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل جو بینکوں میں عوام کے رکھے ہوئے پیسوں سے زکوۃ حکومتی سطح پر وصول کی جاتی ہے۔ کیا اس طرح زکوۃ کی ادائیگی ہوجاتی ہے؟ حالانکہ اس طرح جس کا مال ہو اس کی نیت تو زکوۃ ادا کرنے کی نہیں ہوتی۔
شرعی طور پر اس کا حکم واضح فرمائیں۔
واضح رہے کہ بینک اکاؤنٹ ہولڈرز سے زکوۃ کی مد میں جو کٹوتی کرتی ہے، اس سے زکوۃ ادا ہونے ، نہ ہونے میں اختلاف ہے،بہتریہ ہے کہ زکوۃ کی تاریخ آنے سے پہلے اکاؤنٹ سے رقم نکال کر اس کی زکوۃ خود ادا کردیں یا پھر باقاعدہ تحریری طور پربینک کو تاریخ آنے پر اپنی زکوۃ کی ادائیگی کا وکیل بنائیں کہ میرے اکاؤنٹ سے زکوۃ ادا کریں، اس طریقے سے بالإتفاق زکوۃ ادا ہوجائیگی، لیکن حکومت کی طرف سے زکوۃ کوصحیح مصرف تک پہنچانے کا یقین نہیں ہوتا ہے،اس لئے خود زکوۃ ادا کرنا ہی بہتر ہے۔لما في التنويرمع الدر:
’’(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية ثم نوى والمال قائم في يد الفقير‘‘.(كتاب الزكاة: 222/3: رشيدية)
وفي البحر:
’’هي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي ولا مولاه.... وشرط أدائها نية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب‘‘.
’’قوله:(وشرط أدائها نية مقارنة للأداء أو لعزل ما وجب أو تصدق بكله ) بيان لشرط الصحة.... أطلق المقارنة فشمل المقارنة الحقيقية وهو ظاهر، والحكمية كما إذا دفع بلا نية ثم حضرته النية والمال قائم في يد الفقير فإنه يجزئه،وهو بخلاف ما إذا نوى بعد هلاكه‘‘.(كتاب الزكاۃ: 352/2:رشيدية)
وفي بدائع الصنائع:
’’أما الذي يرجع إلى المؤدي،فنية الزكاة.والكلام في النية في موضعين: في بيان أن النية شرط جواز أداء الزكاة،وفي بيان وقت نية الأداء. أما الأول: فالدليل عليه قوله- صلى الله عليه وسلم: (لا عمل لمن لا نية له)، وقوله: (إنما الأعمال بالنيات)، ولأن الزكاة عبادة مقصودة فلا تتأدى بدون النية كالصوم والصلاة‘‘.(كتاب الزكاة، فصل في شرائط الركن: 456/2: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/62