بیمہ پالیسی یا تکافل کا شرعی حکم

بیمہ پالیسی یا تکافل کا شرعی حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اسٹیٹ لائف کارپوریشن پاکستان کا سیمی گورنمنٹ ادارہ ہے، ان کا کاروبار یہ ہے کہ وہ بلڈنگز بنا کر کرایہ پر دیتے ہیں اور ایکسپریس وے بناتے ہیں ان کے ٹولز سے کرایہ آتا ہے وہ لیتے ہیں اور ان کے بدلے میں پالیسی ہولڈر کو شیئر دیتے ہیں ، جو ہر سال ڈیکلئرکرتے ہیں اور پالیسی کے کاغذات میں نفع ونقصان کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
انسان کی انشورنس نہیں کرتے بلکہ آمدنی اور صحت کے لیے بیمہ پالیسی کی جاتی ہے، اگر خدانخواستہ کسی حادثہ میں آدمی معذور ہوجائے یا فوت ہوجائے، تو اس کا علاج اور بیوہ بچوں کے لیے وہ شیئر کی رقم ادا کی جاتی ہے، جو فلاحی ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں، جس کا کوئی احسان نہیں کیونکہ کارپوریشن میں شیئرز ہولڈر ہوتے ہیں، ان کے بعد ان کی بیوہ اور یتیم بچوں کو ان کی امانت ان کے حوالے کی جاتی ہے، تاکہ وہ بیوہ اور یتیم بچے معاشرے میں کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔
ہم حکومت کو لاکھوں کروڑوں روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں، لیکن اگر گھر کا سربراہ جو گھر چلانے والا ہو وہ فوت ہوجائے تو اس کی بیوہ اور بچوں کو مالی مدد نہیں ملتی۔اسٹیٹ لائف کارپوریشن آف پاکستان اپنے شیئرز ہولڈر کی اور اہل خانہ کی مدد کرتی ہے جو کوئی قرض یا احسان نہیں۔
شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ شرعی اعتبار سے یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کی کوئی بھی بیمہ پالیسی ہو شرعاً ناجائز ہے، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
لما في التنزیل:
«یاأیھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقي من الربا إن کنتم مؤمنین».(سورۃ البقرۃ:278)
وفي إعلاء السنن:
عن علي رضي اللہ عنہ مرفوعا، قال:’’کل قرض جر منفعۃ فھو ربا، وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فھو حرام‘‘.(کتاب الحوالۃ: باب کل قرض جر منفعۃ فھو ربا:499/4، إدارۃ القرآن)
وفي بدائع الصنائع:
’’وأما الذي یرجع إلی نفس القرض: فھو أن لایکون فیہ جر منفعۃ، فإن کان لم یجز، نحو ما إذا أقرضہ دراھم غلۃ، علی أن یرد علیہ صحاحا، أو أقرضہ وشرط شرطا لہ فیہ منفعۃ؛ لما روي عن رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم- أنہ˒˒نھی عن قرض جر نفعا˓˓؛ ولأن الزیادۃ المشروطۃ تشبہ الربا؛ لأنھا فضل لا یقابلہ عوض، والتحرز عن حقیقۃ الربا، وعن شبھۃ الربا واجب ھذا إذا کانت الزیادۃ مشروطۃ في القرض، فأما إذا کانت غیر مشروطۃ فیہ ولکن المستقرض أعطاہ أجودھما؛ فلا بأس بذلک؛ لأن الربا اسم لزیادۃ مشروطۃ في العقد، ولم توجد، بل ھذا من باب حسن القضاء، وأنہ أمر مندوب إلیہ‘‘. (کتاب القرض: فصل في الشروط:597/10، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/197