بیع فاسد کی ایک صورت

بیع فاسد کی ایک صورت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں ایک کاروبار رائج ہے کہ ایک بندہ اپنی بکری یا بھیڑ کسی دوسرے شخص کو اس شرط پر بیچتا ہے کہ وہ بکری یا بھیڑ اسی شخص کو واپس کرے گا جو اس کا پرانا مالک تھا، اور بدلے میں وہ اسی بکری کی قیمت اسی بکری کے بطن سے ادا کرے گا، جب پرانے مالک نے اس خریدنے والے کو رقم ادا کردی، تو یہ بکری دونو ں میں نصف ہوگی، پھر اس خریدنے والے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ آگے چل کر وہ اس کے ساتھ نصف کی شراکت قائم رکھے، یا پھر نصف کی قیمت اس پرانے مالک کو ادا کرے اور بکری رکھے ، یا پھر پرانے مالک سے نصف کی رقم لے اور اور بکری اس کے حوالے کردے، اس دوران اگر بکری ہلاک ہوجائے تو اس خریدنے والے مالک کو اختیار ہے کہ وہ بکری کی قیمت وصول کرے یا معاف کردے۔ کیا یہ بیع و شراء کی صورت جائز ہے؟
وضاحت: مستفتی نے صورت مسئولہ اس طرح واضح کیا ہے کہ: زید عمرو کو بکری مثلاً مبلغ بیس ہزار روپے(20000) میں اس شرط پر بیچتا ہے کہ عمرو یہ بکری واپس زید کو دےگا، اور زید اس کی مذکورہ قیمت اسی بکری کے بطن سے ادا کرے گا (یعنی جب بکری بچہ دے گی اور وہ اس بچے کو پالے گا، پھراس کو بیچے گا، تب اس کی قیمت ادا کرے گا) جب قیمت ادا کردے گا، تب دونوں (زید اور عمرو) اس بکری میں برابر  شریک ہو جائیں گے، اس کے بعد عمرو کو اس بات کا اختیار ہے کے شراکت قائم رکھے یا نصف کی قیمت ادا کرکے بکری اپنے پاس رکھے، یا زید سے نصف کی قیمت وصول کر کے بکری زید کے حوالے کردے، اس دوران اگر بکری ہلاک ہوگئی تو عمرو کو اختیار ہے کہ زید سے بکری کی قیمت وصول کرے یا معاف کردے۔
نوٹ : مستفتی نےاس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ:  اگر بکری کے بچے کی قیمت مذکورہ قیمت سے کم ہو رہی ہو تو زید مذکورہ قیمت پوری کرکے دے گا، اور اگر بڑھ  جائے تو مذکورہ قیمت عمرو کی ہوگی بقایا میں دونوں برابر شریک ہوں گے۔

جواب

بیع میں مذکور شرط ’’مشتری مبیع پرانے مالک  (بائع) کو واپس کرے گا‘‘ فاسد ہے۔ لہذا یہ معاملہ بناء الفاسد علی الفاسد ہے۔ یعنی شرط کے مطابق مشتری جب مبیع بائع کو واپس کرے گا تو اس کے ثمن کی میعاد مجھول ہے، نیز وہ ثمن اسی مبیع کا بطن (بکری کا بچہ) قرار پائی ہے، جو فی الحال معدوم ہے۔
خلاصہ یہ کہ صورت مسئولہ میں بیع ناجائز ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
’’(و) لا (يقتضيه العقد ولا يلائمه وفيه نفع لأحدهما أو) فيه نفع (لمبيع) هو (من أهل الاستحقاق) للنفع بأن يكون آدميا... (ولم يجر العرف به و) لم (يرد الشرع بجوازه)‘‘. (كتاب البيوع، مطلب في الشرط الفاسد...إلخ،7/ 282،284:رشيدية)
وفي الشامية:
’’(وصح بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع‘‘.
وقال ابن عابدين رحمه الله تحته:
’’وأما مفهوم الشرط المذكور وهو أنه لا يصح إذا كان الأجل مجهولا فعلته كونه يفضي إلى النزاع‘‘.(كتاب البيوع، مطلب في الفروق بين الأثمان و المبيعات،7/ 49،50:رشيدية).
وفي البدائع:
’’ومنها شرط لا يقتضيه العقد، وفيه منفعة للبائع، أو للمشتري، أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق، وليس بملائم للعقد، ولا مما جرى به التعامل بين الناس، نحو.... أو يبيع منه كذا... فالبيع في هذا كله فاسد؛ لأن زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا؛ لأنها زيادة لا يقابلها عوض في عقد البيع، وهو تفسير الربا، والبيع الذي فيه الربا فاسد، أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا‘‘.(كتاب البيوع: 12/7: دارالكتب العلمية بيروت).
وفي المحيط البرهاني:
’’وإن كان الشرط شرطاً لم يعرف ورود الشرع بجوازه في صورة، وهو ليس بمتعارف إن كان لأحد المتعاقدين فيه منفعة، أو كان للمعقود عليه من أهل أن يستحق حقاً على الغير فالعقد فاسد‘‘.(كتاب البيوع، الفصل السابع: الشروط التي تفسد البيع: 393/9: إدارة القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/82