کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ7بہنیں اور 4 بھائی ہیں، اب ان کے پاس جو میراث ہے، وہ صرف زمینیں ہیں، آباد اور غیر آباد اور زمینیں اتنی مختصر تھوڑی سی ہیں کہ اگر ان بہنوں کے درمیان تقسیم کی جا ئے، تو ان کے حصے میں زمین کے چھوٹےٹکڑے آئیں گے، جو نہ فصل کے قابل ہیں اورنہ پھل کے، تو کیا اب اس صورت میں گنجائش ہے کہ ان بہنوں کے حصے کی قیمت لگائی جائے اور یہ جتنے پیسے بنتے ہیں وہ انکے درمیان تقسیم کئے جائیں۔
صورت مسئولہ میں اگر بہنیں قیمت لینے پر راضی ہوں، تو انکو قیمت دینا جائز ہے۔لما في الدرالمختار مع ردالمحتار:
’’(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطوه له...(صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر)‘‘. (كتاب الصلح، فصل في التخارج: ۴۹۰،۴۹۱/۸: رشيدية).
وفي التاتارخانية:
’’وفي الكافي: و إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهم منها بمال أعطوه إياه، و التركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا‘‘.(كتاب الصلح، بيان مايجوز من الصلح:۲۳۴/۱۴:مكتبه فاروقيه).
وفي حاشية السراجي:
’’فإن كانت التركة عقارا أو عروضا فأخرجوا أحدهم بمال جاز قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا‘‘.(فصل في التخارج، ص:۹۴:مكتبة البشرى).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/13