کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اس شخص سے رشتہ داری کا تعلق رکھنا کیسا ہے جو بہنوں کو ان کا شرعی حق نہیں دیتا، تو اس کے گھر جانا اور اس کے گھر سے کھانا کھانا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہنوں کے حصوں کی ادائیگی سے متعلق خاص تاکید آئی ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے کہ: تمہیں یہ بات حلال نہیں کہ عورتوں کے جان یا مال کے جبرًا مالک بن جاؤ۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی بہنوں کو ان کا حصہ ادا نہ کرنے پر سخت وعید آئی ہے، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ: قیامت کے روز اللہ تعالیٰ وارث کا حصہ ضبط کرنے والے کو جنت سے اس کے حصہ سےمحروم فرمائیں گے، اور ایک بالشت زمین ناحق ضبط کرنے پر سات زمینیں طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈالی جائیں گی، البتہ جو شخص بہنوں کو ان کا شرعی حق نہیں دیتا، تو اس سے تعلق توڑنا یا محدود کرنا درست ہے، بشرطیکہ اس طریقہ سے اس کی اصلاح کی امید ہو، ورنہ قطع تعلق سے اجتناب کرتے ہوئے موقع محل کو دیکھ کر اسے نصیحت کرتے رہیں۔لما في التنريل:(يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ(النساء:29وفي صحيح البخاري:أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:’’سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ ظَلَمَ مِنْ الْأَرْضِ شَيْئًا، طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ‘‘.(كتاب المظالم، باب إثم مَنْ ظلم شيئا من الأرض، ص:395، دارالسلام)وفي مشكاة المصابيح:وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة ‘‘. رواه ابن ماجه ورواه البيهقي في شعب الإيمان عن أبي هريرة رضي الله عنه.(كتاب الفرائض والوصايا، 567/4، دارالكتب العلمية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/13