بہنوں کو دی گئی رقم کی حیثیت اور تقسیم میراث

Darul Ifta

بہنوں کو دی گئی رقم کی حیثیت اور تقسیم میراث

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱…والد صاحب کے جائیداد میں بھائی بہنوں اور امی جان کے لئے شرعی حیثیت سے کیا حصہ بنتا ہے،میری رہنمائی کی جائے، تاکہ کام آسان ہوجائے، اور یہ بھی بتایا جائے کہ میرے ایک بھائی کا انتقال والد صاحب کے ابتقال سے پہلے ہوچکا ہے تو ان کے بچوں کو کتنا حصہ ملےگا، جب کہ میری معلومات کے مطابق پوتے، پوتیوں کا کوئی حصہ نہیں بنتا اور اس میں شرعی حکم کیا ہے۔
۲… کچھ رقم والد صاحب نے بہنوں کو دی تھی اور کہا تھا کہ جب میراث میں سے  حصہ ملےگا تو یہ رقم اس میں ایڈجسٹ کروادینا تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چار بھائی حیات ہیں، ایک کا انتقال والد صاحب کے انتقال سے پہلے ہوگیا ہے، جب کہ بہنیں کل تین ہیں۔

جواب

۱…صورت مسئولہ میں جو رقم والد صاحب نے بہنوں کو دی تھی وہ بطور ہبہ کے تھی،لہذا یہ بہنیں ہی اس رقم کی مالک ہیں، کسی اور کا اس میں کوئی حق نہیں ہے،اور میراث ان ورثاء کو ملتی ہےجو میت کے انتقال کے وقت زندہ ہوں، لہذا جس بیٹے کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہوا ہےاس کا میراث سے کوئی تعلق نہیں ہے، نیز بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو کچھ نہیں ملتا۔
۲…واضح رہے کہ تقسیم میراث کا طریقہ یہ ہےکہ ترکہ میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں،بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعا ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی واجب الاداءقرض یا دیگر مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کئے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو مرحوم کے ورثاء کے درمیان شرعی طریقے پر تقسیم کیا جائے۔
لہذا والد مرحوم کی جائیداد کے کل 88 حصے کئے جائیں، ان کی زوجہ(بیوہ) کو 11 اور ہر بیٹے کو14اور ہر بیٹی کو 7حصے دئیے جائیں، فیصدی لحاظ سے بیوہ کو 12.5%اور ہر بیٹے کو 15.90%اور ہر بیٹی کو 7.95% حصے ملیں گے۔
مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل نقشہ ملاحظہ فرمائیں!

نمبر شمار

رشتہ عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوہ 11

12.5%

2

بیٹا 14

15.90%

3

بیٹا 14 15.90%

4

بیٹا 14

15.90%

5

بیٹا 14

15.90%

6

بیٹی 7

7.95%

7 بیٹی 7

7.95%

8

بیٹی 7

7.95%

لما في التنزيل:
﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾. (سورة النساء، رقم الآية: 11)
وفيه أيضا:
﴿ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾.(سورة النساء، رقم الآية: 12)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا:تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة،الأول:يبدأ بتكفينه وتجهيزه...ثم تقضى ديونه...ثم تنفذ وصاياه...ثم يقسم الباقي بين ورثته‘‘.(كتاب الفرائض،باب: الحقوق الأربعة المتعلقة بتركة الميت،ص: 10،البشرى)
وفي التنوير مع الدر:
’’(هي)...(تمليك العين مجانا) أي: بلا عوض... (وسببها: إرادة الخير للواهب)  دنيوي: كعوض ومحبة وحسن ثناء.وأخروي‘‘. (كتاب الهبة:534/12،رشيدية)
وفي البحر الرائق:
’’(هي تمليك العين بلا عوض) فخرجت الإباحة والعارية والإجارة والبيع... وسببها إرادة الخير للواهب دنيوي كالعوض وحسن الثناء والمحبة من الموهوب له، وأخروي وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ والملك‘‘.(كتاب الهبة:483/7،رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/29

footer