کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ پانچ بھائی جو بچپن سے ایک ساتھ رہتے تھے۔ ان پانچ بھائیوں کا والد بچپن ہی میں انتقال کرگیا۔ اور والد کی طرف سے کوئی ترکہ بھی نہ مل سکا، پھر ان میں سے تین بھائیوں نے کام شروع کیا اور جو دو بھائی تھے ان کو پڑھائی پر لگادیا۔ بچپن سے اخیرعمر تک ایک ساتھ رہے، گھر کا خرچہ وغیرہ تینوں بھائیوں پر تھا، ان میں ہر کسی کی اولاد ہوئی، اور مال میں فراوانی ہوئی۔اب اخیر عمر میں پانچ بھائی الگ رہنے کے خواہش مند ہیں تو اب جو مال جائیداد وغیرہ ہے وہ پانچ بھائیوں میں برابر تقسیم ہوگی یا نہیں؟ شریعت اس کے بارے میں کیا حکم دیتی ہے؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بھائیوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور ان بھائیوں نے کام میں بھی کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔
صورت مسئولہ میں جن بھائیوں نے کام شروع کیا اور کمایا یہ جائیداد ان کی ملکیت ہے، ان کے درمیان برابر تقسیم ہوگی، اور بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔لمافي تنقيح الفتاوى الحامدية:
’’إن ثبت كون إبنه وأخويه عائلة عليه وأمرهم في جميع مايفعلونه إليه ومعينون له فالمال كله له.... وإن لم يكن بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية‘‘.(كتاب الدعوى: 17/2، رشيدية)
وفي التنويرمع الدر:
’’وما حصل أحدهما فله وما حصلاه معا فلهما نصفين إن لم يعلم ما لكل‘‘.(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة: 497/6، رشيدية)
وفي حاشيته:
’’يؤخذ في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي‘‘.(كتاب الشركة، مطلب اجتمعا في دار واحد الخ: 497/6، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/284