کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بچے کی ولادت اگر مغرب کے بعد ہو تو عقیقہ کا حساب کس طرح کیا جائے؟اس دن کو شمار کریں گے یا اگلےدن سے حساب لگائیں گے۔
صورت مسئولہ میں بچہ کے عقیقہ کا حساب اگلے دن سے کیا جائے گا۔لما فی جامع الترمذي:
حدثنا علی بن حجر أخبرنا علی بن مسھر عن اسماعیل بن مسلم عن الحسن عن سمرۃ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’الغلام مرتھن بعقیقۃ یذبح عنہ یوم السابع ویسمی ویحلق رأسہ‘‘.
حدثنا الحسن بن علی الخلال حدثنا یزید بن ھارون أخبرنا سعید بن أبی عروبۃ عن قتادۃ عن الحسن عن سمرۃ بن جندب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم :’’نحوہ‘‘.
قال ابو عیسیٰ ھذا حدیث غریب من ھذا الوجہ والعمل علی ھذا عند أھل العلم یستحبون أن یذبح عن الغلام العقیقۃ یوم السابع فإن لم یتھیأ یوم السابع فیوم الرابع عشر فإن لم یتھیأ عق عنہ یوم حاد وعشرین وقالوا: لایجزئ فی العقیقۃ من الشاۃ إلا ما یجزئ فی الأضحیۃ‘‘. (کتاب الأضحیۃ، باب من العقیقۃ،رقم الحدیث:1522، ص:483، دارالسلام للنشر والتوزیع الریاض)
وفی الشامیۃ:
’’یستحب لمن ولد لہ ولد أن یسمیہ یوم أسبوعہ ویحلق رأسہ ویتصدق عند الأئمۃ الثلاثۃ بزنۃ شعرہ فضۃ أو ذھبا ثم یعق عند الحلق عقیقۃ إباحۃ علی ما فی الجامع المحبوبي‘‘. (کتاب الأضحیۃ، خاتمۃ:305/21، ص:483، دارالسلام للنشر والتوزیع بیروت)
وفی إعلاء السنن:
’’فإن ولد فی اللیل حسب الیوم الذي یلي تلک اللیلۃ بلاخلاف، فلو ذبح بعد السابع أو قبلہ أو بعد الولادۃ أجزأہ.... ویستحب حلق رأس المولود یوم سابعہ‘‘.(کتاب الذبائح، باب أفضلیۃ ذبح الشاۃ فی العقیقۃ:119/17، إدارۃ القرآن کراتشي).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:191/05