کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے ایسی لڑکی سے شادی کی ہے، جس کا جسم گلے سے ناف تک مردوں کی طرح ہے،(یعنی اس کے پستان نہیں ہیں) اور باقی جسم عورتوں کی طرح ہے، اس عیب کا شادی سے پہلے مجھے علم نہیں تھا، شادی کے بعد لڑکی سے ملنے پر پتا چلا کہ معاملہ اس طرح ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میں اس لڑکی کو رکھنا چاہتا ہوں، اور گھر والے مصر ہیں کہ اس کی وجہ سے گھر میں نحوست آئی ہے، برکت اٹھ گئی ہے،اسے طلاق دو، لڑکی کے والدین نے بھی لڑکی سے زبردستی خلع نامہ پر دستخط کروائے ہیں مگر میں نے ابھی تک دستخط نہیں کیئے، اب میں اس لڑکی کو رکھنا چاہتا ہوں، شرعی حکم کیا ہے؟ کیا میں اس لڑکی کو اس نقص کے باوجود رکھ سکتا ہوں؟میرے لئے ایسا کرنا جائز ہے یا میں اس کو طلاق دے کر آزاد کروں؟
واضح رہے کہ طلاق اللہ رب العزت کے یہاں مبغوض ترین عمل ہے، صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر بیوی کے اس عیب پر راضی ہےاور دوسری تمام علامات کی بنیاد پر شرعاً یہ عورت کے ہی حکم میں ہے، لہذا شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے، اس فعل سے خود کو محفوظ رکھےاور لوگوں کی بے جا باتوں پر دھیان نہ دے۔لما في سنن أبي داود:
عن ابن عمر عن النبى -صلى الله عليه وسلم- قال «أبغض الحلال إلى الله تعالى الطلاق».(كتاب االطلاق،باب في كراهية الطلاق،رقم الحديث:2177، ص:440، دارالسلام رياض)
وفي التنوير مع الدر:
’’(هو) عند الفقهاء (عقد يفيد ملك المتعة) أي حل استمتاع الرجل من امرأة لم يمنع من نكاحها مانع شرعي فخرج الذكر والخنثى المشكل‘‘.
وتحته في الرد:
’’قوله:(فخرج الذكر والخنثى المشكل) أي أن إيراد العقد عليهما لا يفيد ملك استمتاع الرجل بهما لعدم محليتهما له‘‘.(كتاب النكاح، 68/4، رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/20