کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے دادا کے چار بیٹے ہیں ہر ایک بیٹے کی شادی ہوئی ہے اور ہر ایک کے بچے ہیں اور یہ سارے ایک گھر میں رہتے ہیں، جدائی نہیں ہوتی ہے، کھانا، پینا ایک ہی دستر خوان پر ہے اور ان چاروں میں سے صرف ایک کماتا ہے اور ان کی تین دکانیں ہیں چپل اور بوٹ کی اور میں دوسرے بھائی کا سب سے بڑا بیٹا ہوں اور طالب علم ہوں، جب مدرسہ چھٹی ہوتی ہے، تو وہ مجھے کام پر بلاتا ہے اور ایک دکان کا ذمہ سپرد کرتا ہے، کہتا ہے کہ صفائی کا خیال آپ کو کرنا ہے اور سیل اپنے پاس رکھنا، جب رات ہوتی ہے اور دکان بند کرنے کا وقت ہوتا ہے، تو میں پورے دن کی سیل اس کو دیتا ہوں، تو دن کی سیل سے میں کبھی ایک ہزار، کبھی دو ہزار اور کبھی تین ہزار لیتا ہوں اور میں چچا کو نہیں کہتا کہ آج میں نے سیل سے اتنے پیسے لیے اور کہہ بھی دیا تو وہ غصہ کرے گا کہ آپ نے پیسے کیوں لیے، لہذا جتنے پیسے میں نے ابھی تک لیے ہیں، مجھے وہ واپس کرنا لازمی ہیں؟ اور اگر لازمی ہیں، تو میں کس کو پیسے دوں گا اور طریقہ کار کیا ہوگا؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اجرت تو مقرر نہیں، البتہ میرے مدرسے کا خرچہ وہی دیتے ہیں، تو چچا نے کہا کہ اگر آپ چھٹی میں دکان پر کام کرو گے، تو میں آپ کے مدرسے کا خرچہ بڑھا دوں گا، اور اب وہ پہلے سے زیادہ خرچہ دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ کسی کی چیز اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا ناجائز وحرام ہے۔ لہذا آپ نے جتنی بھی رقم لی ہے، اس کو واپس کرنا ضروری ہے، البتہ واپس کرنے کے لیے مالک کو بتانا ضروری نہیں، بلکہ جس جگہ سے وہ رقم اٹھائی ہے، واپس اسی جگہ رکھ دی جائے۔لما في الدر:
’’(ويجب رد عين المغصوب)...(في مكان غصبه)...( ويبرأ بردها بغيرعلم المالك).وفي البزازية غصب دراهم إنسان من كيسه ثم ردها فيه بلا عمله بريء‘‘.(كتاب الغصب، 305/9، رشيدية).
وفي الفتاوى العالمكيرية:
’’والسبيل في المعاصي ردها وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه‘‘.(كتاب الحظروالإباحة، الباب الخامس عشر في الكسب، 161/9، رشيدية)
وفي البدائع:
’’ولو أنفق المودع بعض الوديعة ضمن قدر ما أنفق‘‘.(كتاب الوديعة، فصل فيما يغير حال المعقود عليه، 367/8، رشيدية).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/347