بطور عبرت فیس بک وغیرہ پر تصاویر یا ویڈیوز بنانے اور دیکھنے کا حکم

Darul Ifta

بطور عبرت فیس بک وغیرہ پر تصاویر یا ویڈیوز بنانے اور دیکھنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل فیس بک یا انٹرنیٹ وغیرہ پر قیامت یا اللہ تعالی کی عذاب کی شکلیں تصاویر اور ویڈیوز میں پیش کی جاتی ہیں بطور عبرت کے لئے یا اسی طرح قبر کے احوال سے متعلق مختلف ویڈیوز بناتے ہیں بطور عبرت کے لئے، تو ایسی ویڈیوز کو دیکھنا اور اس کا بنانا کیسا ہے، جائز ہے یا نہیں؟ یا اسی طرح کوئی آدمی فیس بک وغیرہ پر ویڈیو کے دوران کفریہ الفاظ، یا ایسے الفاظ بولتا ہےجس سے عام طور پر آدمی کافر ہوجاتا ہے، تو ایسی ویڈیوز کو دیکھنا اور آگے شیئر کرنا اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اللہ تعالی کے عذاب کی منظر کشی خواہ وہ بطور عبرت ہو درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالی کا عذاب ایک مخفی امر ہےاور لوگوں کو اس طرح کی ویڈیوز سے عبرت حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہ اللہ تعالی کے عذاب کو ہلکا سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ حقیقتاً اللہ تعالی کا عذاب بہت درد ناک ہے، خاص طور پر اسے جاندار کی تصاویر کی شکل میں دیکھنا، دکھانا اس کی قباحت کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
نیز فیس بک وغیرہ پر ویڈیوز میں الفاظ کفریہ کہتے ہوئے دیکھنا اور سننا بھی ناجائز ہے، تصویر کی حرمت کے ساتھ ساتھ  بے جا کفریہ الفاظ کا سننا بھی قباحت در قباحت کا ارتکاب ہے۔
وفي التنزيل العزيز:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ﴾(سورة النساء،59)
وفي صحيح المسلم:
عن أبي طلحة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:’’لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة‘‘.
وفيه أيضا:
عن أبي معاوية:’’إن من أشد أهل النار يوم القيامة عذابا المصورون‘‘.(كتاب اللباس والزينة، باب تحريم صورة الحيوان، رقم الحديث: 5514،5538، دارالسلام الرياض)
وفي صحيح البخاري:
عن عبد الله رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:’’السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة‘‘.(كتاب الأحكام، باب السمع والطاعة،1229، رقم الحدیث:7143، دارالسلام الرياض)
وفي ردالمحتار:
’’وظاهركلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان وقال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى‘‘.(كتاب الصلوة، مطلب إذاتردد الحكم بين سنة وبدعة كان ترك السنةأولى:502/2 ،رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/321

footer