بس ایجنٹ کے لیے دلالی کرنا جو دھوکہ سے ٹکٹ مہنگا بیچتا ہو

بس ایجنٹ کے لیے دلالی کرنا جو دھوکہ سے ٹکٹ مہنگا بیچتا ہو

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بس کمپنی کے ایجنٹ بس کمپنی کے دفتر سے ہٹ کر سڑک کے کنارے ایک ٹیبل رکھ کر سواریوں پر بس کا ٹکٹ فروخت کرتے ہیں، اس طرح کے ایجنٹ عموما ًاجنبی لوگوں پر مہنگا ٹکٹ فروخت کرتے ہیں، اب ایک رکشہ والا کہتا ہے کہ  مجھے اس طرح کے ایجنٹ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے پاس سواری لے کر آنا ہم آپ کو اجرت دیں گے، مثلا: پانچ سو روپے فی سواری اور رکشہ والے کو معلوم ہے کہ اگر میں ان کے پاس سواری لیکر آوں، تو یہ ایجنٹ ان اجنبی لوگوں پر اصل ٹکٹ کی مقرر کردہ قیمت سے مہنگا ٹکٹ فروخت کریں گے، جب کہ ان اجنبی لوگوں کو اس کا پتہ نہیں چلتا کہ اصل ٹکٹ کی قیمت کتنی ہے، وہ مجھ پر اعتماد کرکے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں فلاں شہر کی گاڑی تک پہنچادو، تو کیا میرے لئے اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ناجائز ہونے کی صورت میں اگر اجرت لینے کا کوئی متبادل جائز طریقہ شریعت میں ہے، تو اس کی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ کا سواریوں کے علم میں لائے بغیر ان کو ایسے ایجنٹ کے پاس لے جانا جو ان کو اجنبی سمجھ کر زیادہ کرایہ وصول کرتا ہو، جائز نہیں ہے، اس کی متبادل صورت یہ ہے کہ آپ اپنی سواریوں کے سامنے تمام صورتحال واضح کردیں، اس طرح آپ کے لئے ثالثی پر اجرت لینا جائز ہوجائےگا۔
لما في التاتارخانية:
’’ولو قال لإنسان بعينه: إن دللتني عليه فلك درهم، فإن دله من غير مشي معه، فكذلك الجواب لا يستحق به الأجر، وإن مشى معه ودل، فله أجر مثله‘‘.(كتاب الإجارة، الفصل الخامس عشر في الاستئجار: 138/15: فاروقية)
وفي الصحيح لمسلم:
عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:’’من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا‘‘.(كتاب الإيمان، باب قول النبيﷺ من غشنا فليس منا، ص:57: دارالسلام)
وفي الهداية:
’’لأن الأول تعد هو تسبيب والثاني تعد هو مباشرة، فكانت الإضافة إلى المباشر أولى، ولأن تخلل فعل فاعل مختار يقطع النسبة‘‘.(كتاب الديات، باب مايحدثه الرجل في الطريق: 129/8: البشرى)
وفي الرد:
’’والحاصل أن القياس في جنس هذه المسائل أن يفعل المالك ما بدا له مطلقا؛ لأنه متصرف في خالص ملكه، لكن ترك القياس في موضع يتعدى ضرره إلى غيره ضررا فاحشا‘‘.(كتاب القضاء: 173/8: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:187/143