بروہی زبان میں’’اسٹ، ارٹ، مسٹ‘‘(ایک، دو، تین) کہنے کا حکم

بروہی زبان میں’’اسٹ، ارٹ، مسٹ‘‘(ایک، دو، تین) کہنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص حالت غصہ میں اپنی بیوی کو یہ کہتا ہے کہ جاؤ تجھے طلاق ہے اور اپنی زبان میں یہ بھی کہتا ہے بروہی زبان کی گنتی ہے ’’اسٹ،ارٹ، مسٹ‘‘ یعنی (ایک، دو، تین) اور اس گنتی کے ساتھ طلاق کا لفظ استعمال نہیں کرتا ہے اور اس کی نیت صرف طلاق کی ہوتی ہے، تین طلاق کی نیت نہیں ہوتی۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس شخص اس طرح کہنے سے طلاق مغلظہ واقع ہوتی ہے، طلاق بائن یا طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔ یاد رہے اوپر صورت مسئلہ میں بروہی زبان کی جو گنتی ذکر ہوا ہے، اس زبان کے عرف میں یہ طلاق  ثلاثہ کےلئے مستعمل ہوتا ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر کے ’’جاؤ تجھے طلاق ہے‘‘،’’اور ایک ،دو ،تین‘‘ کہنے اورعرف و قرائن کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر رجوع یا تجدید نکاح ممکن نہیں، لہذا میاں بیوی پر لازم ہے کہ فوراً علیحدگی اختیار کریں۔
لما في رد المحتار :
’’ولو قال لإمرأته أنت بثلاث قال ابن الفضل إذا نوى يقع أنه هنا إذا نوى... ولو قال أنت مني ثلاثا طلقت إن نوى أو كان في مذاكرة الطلاق وإلا قالوا يخشى أن لا يصدق قضاء انتهی‘‘.(کتاب الطلاق، مطلب فی قول الإمام إیمانی کإيمان جبريل: 485/4: رشيديه)
وفي الهندية:
’’ولو قال أنت بثلاث وقعت ثلاث إن نوى ولو قال لم أنو لا يصدق إذا كان في حال مذاكرة الطلاق والإ صدق ومثله بالفارسية توبسه على ما هوالمختار للفتوى‘‘.(کتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق: 424/1: دارالفكر بیروت)
وفی الفتاوى البزازية:
’’وكذا لو قال:دادمت يك طلاق وسكت ثم قال ودوطلاق وسه طلاق يقع الثلاث .ولوقال لها:ترايك طلاق وسكت ثم قال ودويقع الثلاث ولو قال دو بلا واوإن نوى العطف فثلاث وإلا فواحدة‘‘.(کتاب الطلاق: نوع آخر طلقهاثم قال طلقتك: 181/4: ماجديه).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/75