برائیلر مرغی کھانا اور ان کو نجس غذا کھلانے کا حکم

برائیلر مرغی کھانا اور ان کو نجس غذا کھلانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر تمام لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ آج سے 50 سال پہلے برائیلر مرغی/چکن کا نام و نشان نہیں تھا، اس وقت کے لوگ سادہ زندگی گذار رہے تھے، بیماریوں کا نام و نشان نہیں تھا۔
آج کے دور میں تمام مقامی چھوٹے بڑے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، اور موذی بیماریوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، میں اپنی زبان سے ان بیماریوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتا، ہر گھر میں چھوٹا ہو یا بڑا کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق برائیلر چکن (فارمی مرغیاں) ان کی خوراک نہایت ہی گندی چیزوں مثلاً: جانوروں کا خون، انتڑیاں، مردار جانور کا گوشت وغیرہ شامل ہے، جس کی وجہ علماء سے یہ بات سنی گئی ہے کہ اس کا کھانا حرام ہے۔
اب آیا اس کی افزائش کی طرف قدرتی طریقے کے بجائے Anti Biotic (اینٹی بایوٹک) دوائیوں کے ذریعے سے چھ (6) ماہ میں وزن دار مرغی تیار ہوتی ہے، جبکہ دوسری مرغی کو 6 ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔(مرغی کی افزائش کے لئے)
ہماری معلومات کے مطابق تمام بیماریوں کی جڑ چکن ہے، اب کتاب و سنت کی روشنی میں یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کا کھانا جائز ہے یا حرام، یا طبعی مکروہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مرغیوں کی غذا میں گندگی مثلا جانوروں کا خون، انتڑیاں، مردارجانور کا گوشت وغیرہ کا استعمال جائز نہیں، مذکورہ بالا چیزوں سے تیار کی ہوئی غذا کا اثر اگر مرغیوں کے گوشت میں بدبو کی صورت میں ظاہر ہو تو ایسا گوشت کھانا جائز نہ ہوگا، البتہ ایسی مرغیوں کو حلال غذا کھلا کر بدبو ختم ہونے کے بعد کھانا جائز ہوگا، اور اگر مذکورہ بالا چیزوں سے تیار کی ہوئی غذا کھانے سے مرغیوں کے گوشت میں بدبو پیدا نہ ہو،(جیسا مشاھدہے) تو ایسی غذا سے پلی ہوئی مرغیاں اور ان کا گوشت حلال ہے، ان کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وفي التنوير مع الدر:
’’وكره لحمهما أي لحم الجلالة والرمكة، وتحبس الجلالة حتى يذهب نتن لحمها. وقدر بثلاثة أيام...ولو أكلت النجاسة وغيرها بحيث لم ينتن لحمهاحلت كما حل أكل جدي غذي بلبن خنزير لأن لحمه لا يتغير، وما غذي به يصير مستهلكا لا يبقى له أثر‘‘.
وتحته أيضا:
’’قوله:(حلت) وعن هذا قالوا: لا بأس بأكل الدجاج؛ لأنه يخلط ولايتغيرلحمه وروى أنه عليه الصلاة والسلام كان يأكل الدجاج وما روى أن الدجاجة تحبس ثلاثة أيام ثم یذبح فذلك على سبيل التنزه زيلعي.
قوله: (لأن لحمه لا يتغير إلخ) كذا في الذخيرة وهو موافق‘‘.(كتاب الحظر والاباحة: 563/9، رشيدية)
وفي البحرالرائق:
’’قالوا: لا بأس بأكل الدجاج لأنها تخلط ولا يتغير لحمه وما روي أن الدجاج يحبس ثلاثة أيام, ثم يذبح فذلك على وجه القربة لا على أنه شرط وفي المحيط ولا بأس بأكل شعير يوجد في بعر الإبل والشاة فيغسل ويؤكل‘‘.(كتاب الحظر والاباحة: فصل في الأكل والشرب، 335/8، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/291