کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ 16/17 سال کی ایک باکرہ لڑکی زینب نے اپنے بھتیجے عمروکے منہ میں اپنا پستان دیا تھا، پھر زینب کی شادی ہوجاتی ہے، اور اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوتی ہے، جس کا نام خالدہ ہے، تو آیا اس خالدہ کی شادی اس عمرو کے ساتھ جائز ہے؟ جس کے منہ میں اِس لڑکی کی والدہ نے پستان دیئے تھے، شادی سے پہلے باکرہ ہونے کی حالت میں۔
وضاحت: سوال میں مذکور بچے عمرو کی عمر اس وقت رضاعت کی تھی، یعنی دودھ پی رہا تھا۔
صورت مسئولہ میں اگر یقینی طور پر معلوم ہے کہ مسماۃ زینب نے جب اپنے بھتیجے مسمی عمرو کے منہ میں پستان دیئے تو اس وقت اس کے پستانوں میں دودھ تھا، اور عمرو نے دودھ پیا ہے، تو رضاعت ثابت ہوجائے گی، اور مسماۃ زینب کی اولاد مسمی عمرو کے رضاعی بہن بھائی ہوجائیں گے، لہذا اس صورت میں نکاح جائز نہیں۔
اور اگر یقینی طور پر معلوم نہیں کہ دودھ تھا یا نہیں، اور اگر دودھ تھا تو عمرو نے دودھ پیا یا نہیں (یعنی فقط پستان منہ میں دیئے تھے، دودھ نہیں پیا تھا) تو محض شک کی وجہ سے رضاعت ثابت نہیں ہوتی، لہذا اس صورت میں مسمی عمروکا نکاح مسماۃ خالدہ سے درست ہے، البتہ اس صورت میں (شک کی وجہ سے) احتیاطاً نکاح نہ کرنا بہتر و اولی ہے۔
اور اگر یقینی طور پر معلوم ہے کہ دودھ نہیں تھا، تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی، لہذا اس صورت میں نکاح درست ہے۔لما في التنوير مع الدر:
’’(هو) لغة: مص الثدي. وشرعا: (مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الاصح) فتح، وبه يفتى.......(ويثبت التحريم) في المدة فقط‘‘.(كتاب النكاح، باب الرضاع،386/4،رشيدية)
وفي الهندية:
’’بكر لم تتزوج، لو نزل لها لبن فأرضعت صبيا، صارت أما للصبي وتثبت جميع أحكام الرضاع بينهما.......... المرأة إذا جعلت ثديها في فم الصبي ولا تعرف أمص اللبن أم لا؟ ففي القضاء: لا تثبت به الحرمة بالشك، وفي الاحتياط: تثبت‘‘.(كتاب الرضاع، 410/1، دارالفكر بيروت)
وفي الفتاوى الولواجية:
’’إذا نزل للمرأة لبن وهي بكر لم تتزوج فأرضعت به فهو رضاع؛ لأن الحرمة تعلقت بالإثبات وقد وجد‘‘. (كتاب النكاح، الفصل الرابع، 366/1، فاروقيه بشاور).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 189/346