کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک عاقل بالغ مسلمان لڑکی ہوں، میرے والد اور اس کے دوسرے رشتہ دار میری رضاء کے خلاف میرا نکاح ایک ایسی جگہ کروانا چاہتے ہیں جہاں سے میں مسلسل اعلانیہ انکار کررہی ہوں اور اعلانیہ کہہ چکی ہوں کہ میں اس لڑکے کو ہر گز پسند نہیں کرتی، اور اس لڑکے سے بالکل شادی نہیں کرنا چاہتی، چنانچہ ان کے خاندان کے لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں، میں نے انکار کی انتہا کرتے ہوئے زہر کھا لیا، علاج کرکے بچایا گیا، مگر پھر بھی میرے والد اور اس کے رشتہ دار بضد ہیں، ڈرا دھمکا کے ان لوگوں نے میرا جینا حرام کردیا ہے، ان لوگوں نے مجھے خود کشی کے موڑ پر ایک دفعہ پھر مجبور کیا ہے، یا کسی محفوظ جگہ پناہ لوں گی، اب مفتیان کرام سے استدعا کی جاتی ہے کہ میرے مذکورہ بالا مسئلہ اور مذکورہ بالا لوگوں کے لیے شرع محمدی ﷺ کا کیا حکم ہے؟ قرآن شریف اور حدیث شریف، فقہ اور دوسری مستند کتابوں کے حوالے سے وضاحت کیساتھ فتوی صادر فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں والدین یا دوسرے رشتہ دار مسلمان عاقل بالغ لڑکی کو نکاح پر جبر نہیں کرسکتے ہیں، جب تک لڑکی اپنی مرضی سے اجازت نہ دے، لڑکی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔قال في الهداية:
’’ولا يجوز للولي إجبار البكر البالغة على النكاح‘‘.(314/2)
وقال في التنوير:
’’ولا تجبر البالغة البكر على النكاح‘‘.
وفي الدر:
’’لانقطاع الولاية بالبلوغ‘‘(شامی:298/2).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:04/11