ایک گھر اور ٹی وی کیبل کے کاروبار میں میراث کی تقسیم

Darul Ifta

ایک گھر اور ٹی وی کیبل کے کاروبار میں میراث کی تقسیم

سوال

کیا فرماتے ہیں علما ئے کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے چچا کا انتقال ہوگیا ہے، مرحوم نے ایک مکان جس کی قیمت 52 لاکھ روپے لگی ہےاور ساتھ ہی ٹی وی کیبل کا کاروبار چھوڑا ہے، مرحوم کے پسماندگان میں ایک بیوہ اور دو بیٹیاں ہیں اور ایک بھائی حیات ہے، مرحوم کے والدین اور ایک بھائی وفات پاچکے ہیں، مرحوم کی کوئی بہن نہیں ہے۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ  شریعت کی رو سے ورثاء کا کتنا حصہ ہے؟راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں یہ گھر میراث میں تقسیم ہوگا،اور ٹی وی کیبل کا استعمال اگر ٹی وی کےساتھ ہی خاص ہے تو پھر اس کو ضائع کردیا جائے یا پھر توڑکر کباڑ میں بیچ دیا جائے، اور حاصل شدہ رقم کو میراث میں تقسیم کردیا جائے، اور اگر اس کا استعمال دیگر جائز امور میں بھی ہوتا ہو تو پھر یہ بھی بعینہ میراث میں تقسیم ہوگا، نیز مرحوم کے انتقال کے بعد جو پیسے اس سے حاصل ہوئے ہیں، ان کو بھی صدقہ کرنا ضروری ہے، اور تقسیم میراث کا طریقہ یہ ہے کہ ترکہ میں سے سب سے پہلے مرحوم کےکفن دفن کے درمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعا ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے کوئی واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کئے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو مرحوم کے ورثاء کے درمیان شرعی طریقے پر تقسیم کیا جائے۔
لہذا مرحوم کی جائیداد کے کل 24حصے کئے جائیں، ان کی زوجہ (بیوہ) کو 3، اور ہر بیٹی کو8 اور بھائی کو 5حصے دئیے جائیں، فیصدی لحاظ سے بیوہ کو %12.5،اور ہر بیٹی کو %33.33، اور بھائی کو %20.83حصے ملیں گے۔
مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل نقشہ ملاحظہ فرمائیں۔

نمبر شمار

رشتہ

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوہ

3

12.5%

2

بیٹی

8

33.33%

3

بیٹی

8

33.33%

4

بھائی

5

20.83%

لما في التنزيل:
«يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ».(سورة النساء، رقم الآية: 11)
وفيه أيضا:
«فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ».(سورة النساء، رقم الآية: 12)
وفي السراجي:
’’قال علماؤنا : تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة،الأول : يبدأ بتكفينه وتجهيزه...ثم تقضى ديونه...ثم تنفذ وصاياه...ثم يقسم الباقي بين ورثته‘‘.(كتاب الفرائض،باب: الحقوق الأربعة المتعلقة بتركة الميت،ص: 10-14، بشرى)
وفي التنوير مع الدر:
’’(وصح بيعها) كلها، وقالا: لا يضمن ولا يصح بيعها، وعليه الفتوى. ملتقى ودرر وزيلعي وغيرها. و أقره المصنف‘‘.( كتاب الغصب: 353/9،رشيدية)
وفيه أيضا:
’’(لا تصح الإجارة لعسب التيس)...(و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي)‘‘.(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:92/9،رشيدية).فقط.واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:189/63

footer