ایک سید کا دوسرے سید کو زکوٰۃ دینا

ایک سید کا دوسرے سید کو زکوٰۃ دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر ایک سید دوسرے سید کو زکوۃ دے تو کیا اس طرح زکوۃ دینا اور لینا جائز ہے، جب کہ اس دور میں بیت المال سے وظیفہ بھی نہیں ملتا سید کو، اور اس سید کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے تو کیا سید زکوۃ کا مال لے سکتا ہے؟ یا وہ فقر کو اختیار کرے؟

جواب

صورت مسئولہ میں ایک سید کا دوسرے سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں، یہی قول راجح اور مفتی بہ ہے، بقیہ سید اپنے لئے کوئی مناسب ذریعہ معاش تلاش کرے یا اہل محلہ ان کے ساتھ نفلی تعاون کریں، جو کہ باعث اجر عظیم ہے۔
لما في الشامية:
’’(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، وقول العيني والهاشمي: يجوز له دفع زكاته لمثله صوابه لا يجوز‘‘.
’’قوله: (إطلاق المنع الخ) يعني سواء في ذلك كل الأزمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم. وروى أبو عصمة عن الإمام أنه يجوز الدفع إلى بني هاشم في زمانه ,،لأن عوضها وهو خمس الخمس لم يصل إليهم لإهمال الناس أمر الغنائم وإيصالها إلى مستحقيها وإذا لم يصل إليهم العوض عادوا إلى المعوض كذا في البحر‘‘.(كتاب الزكاة، باب المصرف، مطلب في الحوا ئج الأصلية: 350/3، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 191/206