کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فضائل اعمال میں ایک حدیث مذکور ہے کہ قضاعہ قبیلہ کے دو صحابی ایک ساتھ مسلمان ہوئے، ان میں سے ایک صاحب جہاد میں شہید ہوگئے جبکہ دوسرے صحابی کا ایک سال بعد انتقال ہوا، تو ایک تیسرے صحابی نے ان دونوں حضرات کو خواب میں دیکھا کہ وہ مؤخر فوت ہونے والے صحابی اس شہید صحابی سے پہلے جنت میں داخل ہوئے، خواب میں دیکھنے والے صحابی کو تعجب ہونے پر اس نے حضور ﷺ سے دریافت کیا، نبی ﷺ نے فرمایا: کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے، جبکہ مؤخر فوت ہونے والے صحابی کے ایک ماہ کے روزے اور نمازیں اور اتنی اتنی عبادات دوسرے صحابی سے بڑھ گئیں۔
اب آپ مفتیان کرام سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی سندی حیثیت کیسی ہے؟ اور اگر قابل بیان ہے پھر وہی خدشہ دل میں آتا ہے کہ شہید کے تو بے شمار فضائل قرآن وحدیث میں آئے ہیں، یہاں تک کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، سوائے قرض کے، پھر یہ برتری کیسی؟
واضح رہے کہ یہ حدیث مبارک صحیح سند سے ثابت ہے اور قابل بیان ہے، جہاں تک سوال میں شبہ کا جو ذکر ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بعض لوگ نماز، روزوں میں کمال اخلاص کی وجہ سے اس درجے کو پالیتے ہیں جو شہداء نہیں پاسکتے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے کمال اخلاص و سچائی کی بناء پر فضیلت کے اس بلند مقام کو پہنچے جسے شہداء وغیرہ نہیں پہنچ سکتے، شاید ان دوسرے صحابی نے بھی اخلاص اور اعمال صالحہ میں کمال کی وجہ سے اس درجے کو حاصل کرلیا، جو پہلے صحابی شہید ہونے کے باوجود حاصل نہ کر سکے۔لما في مسند الإمام أحمد بن حنبل:
’’حدثنا محمد بن بشر حدثنا محمد بن عمرو حدثنا أبو سلمة عن أبي هريرة قال: كان رجلان من بلي حي من قضاعة أسلما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم واستشهد أحدهما وأخر الآخر سنة، قال: طلحة بن عبيد الله فأريت الجنة فرأيت المؤخر منهما أدخل قبل الشهيد فتعجبت لذلك فأصبحت فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم أو ذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أليس قد صام بعده رمضان وصلى ستة آلاف ركعة أو كذا وكذا ركعة صلاة السنة‘‘.(126/14، رقم الحدیث:8399: مؤسسة الرسالة).
وفي تقريب التهذيب لابن حجر:
’’يزيد بن هارون بن زاذان السلمي مولاهم أبو خالد الواسطي ثقة متقن عابد من التاسعة مات سنة ست ومائتين وقد قارب التسعين .ع‘‘.(الترجمة:7789،ص:606: دار الرشيد).
وفي الجرح و التعديل:
’’محمد بن بشر العبدى وهو ابن بشر بن الفرافصة أبو عبد الله العبدى من عبد القيس مات بالكوفة وهو من اصحاب الحسن بن صالح روى عن اسمعيل بن ابى خالد والاعمش وزكريا بن ابى زائدة ومسعر ومحمد بن عمرو روى عنه جعفر بن عون ومحمد بن عبد الله بن نمير وابنا ابى شيبة سمعت ابى يقول ذلك، نا عبد الرحمن انا يعقوب بن اسحاق فيما كتب إلى قال انا عثمان بن سعيد قال سألت يحيى بن معين عن محمد بن بشر فقال ثقة‘‘. (الترجمة:1271: 381/7: دارالكتب العلمية).
مذکورہ حدیث الفاظ کی کمی و زیادتی کے ساتھ دیگر کتب حدیث میں مذکور ہے:وفي سنن النسائي:
(كتاب الجنائز، باب الدعاء، ص:395، رقم الحدیث:1987: دارالسلام)
وکذا في سنن ابن ماجة:
(كتاب تعبيرالرؤياء، باب أصدق الناس رؤيا...، ص:710، رقم الحدیث:3925: دارالسلام)
وکذا في أوجز المسالك:
(كتاب قصرالصلاة، باب جامع الصلاة: 570/3، رقم الحدیث:408: دارالقلم)
وکذا في سنن أبي داود:
(كتاب الجهاد، باب في النور يرى عند قبر الشهيد، ص:511، رقم الحدیث:2524: دارالسلام).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی