اپنی زندگی میں وصیت کرنے کا شرعی طریقہ کار

اپنی زندگی میں وصیت کرنے کا شرعی طریقہ کار

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میں اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کی وصیت کرنا چاہوں، تو اس کا کیا طریقہ کار ہوگا، جبکہ میرے مذکورہ بالا(تین بہنیں، والدہ) رشتہ داروں کے علاوہ ایک اہلیہ بھی ہیں۔

جواب

اگر آپ اپنی زندگی میں وصیت کرنا چاہیں، تو چند چیزیں ملحوظ رہنی چاہیے:

  • آپ اپنے مال میں سے ایک تہائی کی وصیت کرسکتےہیں، جو کہ آپ کی وفات کے بعد جاری ہوگی، اس سےسے زیادہ کی وصیت جائز نہیں۔
  • ورثاء میں سے کسی کے لئے وصیت نہیں کرسکتے، البتہ کسی غیرِوارث کے لئےوصیت جائز ہے۔
  • وصیت کرنے سے ورثاء میں سے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

لما في صحيح البخاري:
عن عامر بن سعد، عن أبيه رضي الله عنه قال:’’((مرضت فعادني النبي صلى الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله!ادع الله أن لا يردني على عقبي،قال:لعل الله يرفعك وينفع بك ناسا. فقلت:أريد أن أوصي وإنما لي ابنة،فقلت:أوصي بالنصف؟ قال: النصف كثير، قلت: فالثلث؟ قال: الثلث والثلث كثير أو كبير قال: وأوصى الناس بالثلث فجاز ذلك لهم))‘‘.(كتاب الوصايا، باب الوصية بالثلث، رفم الحديث:2744، ص:452،دار السلام)
وفي جامع الترمذي:
عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع :’’إن الله تبارك وتعالى قد أعطى لكل ذي حق حقه فلا وصية لوارث ،الولد للفراش وللعاهر الحجر وحسابهم على الله...إلخ‘‘.(كتاب الوصايا، باب ما جاء لا وصية لوارث، رقم الحديث:2120،ص:641، دار السلام بيروت).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/239