کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں، جن کے لواحقین میں ایک بیٹا، تین بیٹیاں اور بیوہ ہیں، اور ترکہ میں ایک مکان ہے، جس کی مالیت تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے ہے، اور اس مکان کی تعمیر کی مد میں پندرہ لاکھ میرے ذاتی خرچ ہوئے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اس مکان کی تقسیم مذکورہ بالا ورثاء کے درمیان کس طرح ہوگی؟نیز میرے جو ذاتی اخراجات ہوئے ہیں، اس رقم کو وراثت میں شمار کیا جائےگا یا ترکہ کی رقم سے منہا کرکے اس کے بعد تقسیم ہوگی؟
وضاحت:پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مستفتی نے مکان کی تعمیر میں جو رقم خرچ کی ہے، وہاں کی زمین اور مکان دونوں والد صاحب کے نام ہیں اور انہوں نے جو رقم تعمیر میں خرچ کی ہے، وہ والد صاحب کی معاونت میں خرچ کی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے ان کے کفن دفن کے درمیانے اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے بطورِ احسان ادا نہ کئے ہوں، اس کے بعد ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا مالی واجبات ہوں تو وہ ادا کئے جائیں،پھر مرحوم نے اگر کسی غیرِ وارث کے لئے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کردیا جائے، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے والد صاحب کے ساتھ محض تعاون کی نیت سے رقم(پندرہ لاکھ روپے) خرچ کی ہے، تو اس کو الگ کئے بغیر مذکورہ مکان/مکان کی قیمت کو شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں گے، بصورِ دیگر مکان کی قیمت میں سے پندرہ لاکھ روپے لینا آپ کے لئے درست ہوگا۔
لہٰذا مذکورہ مکان( کو بیچنے کے بعد اس کی رقم جو کہ آپ نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے بتائی ہے)کو (40) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جن میں سے مرحوم کی بیوہ کو(5) حصے، بیٹے کو(14) اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو(7)حصے دیے جائیں۔
فیصدی اعتبار سے بیوہ کو مذکورہ مکان کے (%12.5)، بیٹے کو (%35) اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو (%17.5) حصے دیے جائیں۔
اور قیمت کے اعتبار سے بیوہ کو اٹھارہ لاکھ پچھتر ہزار روپے(1،875،000) اور بیٹے کو باون لاکھ پچاس ہزار(5،250،000) اور بیٹیوں میں سے ہر ایک کو چھبیس لاکھ پچیس ہزار روپے(2،625،000) ملیں گے۔ مزید تفصیل کے لئے نقشہ ملاحظہ فرمائیں:
نمبر شمار |
رشتہ |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
باعتبارِرقم |
01 |
بیوہ |
05 |
12.5% |
1،875،000 |
02 |
بیٹا |
14 |
35% |
5،250،000 |
03 |
بیٹی |
07 |
17.5% |
2،625،000 |
04 |
بیٹی |
07 |
17.5% |
2،625،000 |
05 |
بیٹی |
07 |
17.5% |
2،625،000 |
لما في التنزيل:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾.(سورة النساء:11 ).
وفي السراجي:
’’أما للزوجات فحالتان: الربع للواحدة فصاعدة عند عدم الولد وولد الإبن وإن سفل، والثمن مع الولد أو ولد الإبن وإن سفل‘‘.
وفيه أيضا:
’’وأمالبنات الصلب فأحوال ثلاث: النصف للواحدة والثلثان للاثنين فصاعدة ومع الإبن للذكر مثل حظ الأنثيين وهو يعصبهن‘‘.(فصل في النساء،ص:32،33،البشرى)
وفيه أيضا:
’’تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة، الأول: يبدأ بتكفينه و تجهيزه من غير تبذير ولا تقصير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب و السنة و الإجماع الأمة‘‘. (ص:11-14، البشری).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/238