کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب ایک آدمی کی جائیداد ہو یعنی زمین ہو اس میں بعض باغات ہو اور بعض خالی ہو اور اس کے ساتھ اس کے پاس سرمایہ اور کاروبار بھی ہو اور یہ اپنی موت سے پہلے اپنی شادی شدہ بیٹی کو اس کا حصہ دینا چاہتا ہے اور اس کی اور بیٹیاں بھی ہیں، لیکن وہ شادی شدہ نہ ہوں ساتھ ساتھ بیٹے بھی ہیں تو اس شخص کا اس طرح دینا کیسا ہے آیا جائز ہے یا نہیں؟ اور پھر دینے کی کیا صورت ہوگی یعنی زمین میں سے اس کو حصہ دینا ہے یا زمین سے جو آمدنی حاصل ہوگی اور کاروبار سے جو آمدنی حاصل ہوگی اس میں سے دینا ہے اگر آمدنی دینی ہے، تو پھر خالی زمین اور گھر کی صورت کیا ہوگی؟ اس کے بارے میں دلائل کے ساتھ وضاحت کریں۔
واضح رہے کہ اپنی زندگی میں جائیداد کو اولاد کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً ہدیہ کہلاتا ہے، اور ہدیہ قبضہ سے تام ہوتا ہے۔ اولاد میں ہدیہ کے بارے میں یہ ضروری ہے کہ تمام اولاد میں برابری کی جائے، البتہ اگر ان میں سے کوئی ایک زیادہ خدمت گذار یا اس کی ضروریات زیادہ ہوں تواس بناء پر انہیں دوسری اولاد کی بنسبت کچھ زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں بیٹی اگر ضرورت مند ہےتو اس کو جائیداد میں سے بھی کچھ دیا جاسکتا ہےاور اس کی آمدنی میں سے بھی، لیکن صرف اس وجہ سے کہ یہ بیٹی شادی شدہ ہے، دیگر اولاد کو ہدیہ سے محروم رکھنا درست نہیں ہے۔ باقی یہ جو کچھ دیا جارہا ہے، اس کا حکم چونکہ صرف ہدیہ کاہے، اس لئے والد کے انتقال کے بعد اس بیٹی کو میراث میں بھی حصہ ملےگا، لہذا بہتر یہی ہےکہ پوری جائیداد تمام اولاد میں تقسیم کی جائے یا فی الحال تقسیم نہ کی جائے، بلکہ والد کے انتقال کے بعد تقسیم شرعی عمل میں لائی جائے۔لمافي الأصل للإمام محمد:
’’محمد عن أبي يوسف عن الزهري عن سعيد بن المسيب قال: قال عمر بن الخطاب: ما بال أحدكم يَنْحَل ولدَه بصدقة لا يحوزها ولا يقسمها، يقول: إن أنا مت كانت له، وإن مات هو رجعت إلي، وأيم الله لا يَنْحَلُ رجل ولده نِحْلَة لم يحزها ولم يقسمها ثم يموت إلا صارت ميراثاً للوارث‘‘. (كتاب الهبة، باب الهبة لذوي الأرحام: 363/3: دار ابن حزم)
وفي الذخيرة البرهانية:
’’وإن وهب ماله كله للإبن جاز في القضاء، وهو(إثم نص) عليه محمد رحمه الله. وقد صح أن رسول اللهﷺ قال في مثل هذه الصورة:(اتق الله)‘‘.(كتاب الهبة، الفصل الخامس في هبة الوالدين للولد: 134/9:دارالكتب العلمية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:188/154