کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱…فاطمہ اور زید دونوں نے ایک عورت کا دودھ پیا (رضاعی بہن بھائی ہیں)، اب زید کی ایک بیٹی ہے، اور فاطمہ کا ایک بھائی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ زید کی بیٹی کے ساتھ فاطمہ کے بھائی کا نکاح جائز ہے یا نہیں؟
۲…رضاعت کا تعلق صرف زید اور فاطمہ تک محدود ہے، زید اور فاطمہ کی خاندان تک اس کا تعلق رہے گا؟
۳…فاطمہ کے بھائی اور زید کی بیٹی کا آپس میں رشتہ چچا اور بھتیجی کا تو نہیں ہوا؟
۴…چچا اور بھتیجی کا نکاح آپس میں جائز ہے؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ زید اور فاطمہ نے کسی تیسری عورت کا دودھ پیاہے، جو نہ زید کی والدہ ہے اور نہ فاطمہ کی۔
صورت مسئولہ میں رضاعت کا تعلق صرف زید اور فاطمہ تک محدود ہے، کہ زیداور فاطمہ نہ ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں،اور نہ ایک دوسرے کی اولاد کے ساتھ اپنا نکاح کراسکتے ہیں، زید اور فاطمہ کے علاوہ ان کے دوسرے رشتہ دار ایک دوسرے کے حق میں اجنبی ہیں ، لہذا فاطمہ کے بھائی کا زید کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔لما في التنزيل:
﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ... وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾.(سورة النساء، رقم الأية: 23،24)
وفي الدر مع الرد:
’’(وتحل أخت أخيه رضاعا) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعا أخت نسبا وبهما، وهو ظاهر‘‘.(كتاب النكاح، باب الرضاع:398/4: رشيدية)
وفي التاتارخانية:
’’ويحرم على الرضيع ابواه من الرضاع وأصولهما من النسب والرضاع جميعا...وأخ الرجل عمه، وأخته عمته،... وفي الوالوالجية: ولا بأس لأخ الغلام أن يتزوج التي أرضعت أخاه، وكذلك ما بدا له من ولدها لأم‘‘.(كتاب الرضاع: 362/4: فاروقية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/334