اومان نامی خودرو گھاس کی کمائی میں زکوۃ کا حکم

اومان نامی خودرو گھاس کی کمائی میں زکوۃ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں پہاڑوں میں ایک قیمتی گھاس ہے جو خودرو ہے پشتو میں اس گھاس کا نام ’’اومان‘‘ ہے، لوگ اس کو کاٹتے ہیں، پھر اس کو بیچتے ہیں، تو اس سے حاصل ہونے والی کمائی کا کیا حکم ہے؟ اور اس کمائی پر زکوۃ واجب ہے یا نہیں؟ ہمارے علاقہ کے جو علمائے کرام ہیں ان کے درمیان شدید اختلاف ہے، اور تین قسم کے اقوال ہیں:
۱…بعض علماء کے نزدیک حرام ہیں اور زکوۃ بھی حرام ہے۔
۲…جائز ہے اور زکوۃ دینا بھی واجب ہے۔
۳…کمائی جائز ہے اور زکوۃ واجب نہیں ہے۔
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس گھاس کو نشہ آور اشیاء میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن زیادہ تر دیگر ضروریات میں مثلاً جانوروں کے چارہ اوردوائی وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، اور سوال میں زکوۃ مراد ہے عشر مراد نہیں ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر اس  کے کاٹنے اور بیچنے پر حکومت کی طرف سے پابندی نہیں ہے تو اس گھاس سے حاصل ہونے والی کمائی جائز ہے، اور اس کمائی کا حکم عام مال کی طرح ہے کہ اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائےتو زکوۃ ہے ورنہ نہیں ہے۔
لمافي سنن أبي داود:
’’عن رجل من المهاجرين من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم قال: غزوت مع النبى صلى الله عليه وسلم ثلاثا أسمعه يقول: المسلمون شركاء فى ثلاث الكلأ والماء والنار‘‘.(كتاب الإجارة، باب في منع الماء، ص:502، رقم الحدیث:3477، دار السلام للنشرالرياض)
وفي الأشباه والنظائر:
’’وذكر قاضي خان في فتاواه إن بيع العصير ممن يتخذه خمرا إن قصد به التجارة فلا يحرم وإن قصد به لأجل التخميرحرم‘‘.(الفن الأول، القواعدالكلية، القاعدةالثانية، الأموربمقاصدها: 69/1، رشيدية)
وفي التنوير مع الدر:
’’(والمراعي)أي الكلأ(وإجارتها)أما بطلان بيعها فلعدم الملك لحديث:(الناس شركاء في ثلاث:في الماء والكلأ والنار)وأما بطلان إجارتها فلأنها على استهلاك عين،ابن كمال،وهذا إذا نبت بنفسه وإن أنبته بسقي وتربية ملكه وجاز بيعه،عيني،وقيل لا‘‘.
وتحته في الرد:
’’وفي الكلأ الاحتشاش ولو في أرض مملوكة غير،أن لصاحب الأرض المنع من دخوله،ولغيره أن يقول إن لي في أرضك حقا،فإما أن توصلني إليه أو تحشه أو تستقي وتدفعه لي،وصار كثوب رجل وقع في دار رجل، إما أن يأذن للمالك في دخوله ليأخذه،وإما أن يخرجه إليه‘‘.(كتاب البيوع، مطلب استثناء الحمل في العقود على ثلاث مراتب: 257/7، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:190/86