انتقال کے دوسرے یا تیسرے دن میت کے لیے عصر کے بعد دعا مغفرت کرنا

انتقال کے دوسرے یا تیسرے دن میت کے لیے عصر کے بعد دعا مغفرت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میت کے دوسرے یا تیسرے دن بعد نماز عصر میت کے لئے دعائے مغفرت کے اہتمام کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ میت کو دفن کرنے کے بعد اعلان کیا جاتا ہے کہ کل بعد نماز عصرفلاں مسجد میں دعائے مغفرت ہو گی، پھر لوگ جمع ہوتے ہیں اور میت کے لئے دعائے مغفرت ہوتی ہے، پہلے تیسرے دن یہ معاملہ ہوتا تھا تو جب علمائے کرام نے سمجھایا کہ یہ بدعت ہے تو لوگوں نے دوسرے دن اس طرح کا سلسلہ شروع کیا، اب یہ سلسلہ جاری ہے۔

جواب

واضح رہے کہ میت کے لئے دعائے مغفرت کرنا اچھا عمل ہے، لیکن اس کے لئے کوئی خاص دن یا وقت یا جگہ متعین کرنا اور اس کا اہتمام کرنا یہ درست عمل نہیں ہے، اس کا ثبوت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے، لہذا صورت مسئولہ میں ذکر کردہ دعائے مغفرت کے طریقہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اور اگر یہ دعائے مغفرت بطور تعزیت کے ہو تب بھی درست نہیں، اس لئے کہ تعزیت میں مستحب یہ ہے کہ دفن کے متصل بعد اہل میت کے پاس آکر ان کو تسلی دی جائے اور ان کے لئے اور میت کے لئے دعائے مغفرت کی جائے، اس کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوجائیں، اورتعزیت کے لئے مسجد میں بیٹھنا درست نہیں، کیونکہ فقہائے کرام رحمہ اللہ نے اس کو مکروہ لکھا ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
لمافي رد المحتار:
’’ ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما‘‘.(كتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب البدعة خمسة أقسام:2 /357،356، رشيدية)
وفي فيض القدير:
’’قال المناوي رحمه الله تعالى تحت حديث:’’من أحدث في أمرناهذا‘‘.... أي أنشأ واخترع وأتى بأمر حديث من قبل نفسه... (ما ليس منه)أي رأيا ليس له في الكتاب أو السنة عاضد ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط (فهو رد) أي مردود على فاعله لبطلانه‘‘. (ج:7، ص:557، دار الحديث القاهرة)
وفي مجموعة الفتاوى على هامش خلاصةالفتاوى:
’’ایں طور مخصوص نہ در زمانہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم بود، ونہ در زمانہ خلفاء، بلکہ وجود آں در قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر اند منقول نہ شدہ، وحالاًدر حرمین  شریفین "زادہما اللہ شرفا" عادات خواص نیست.... وایں را ضروری دانستن مذموم است الخ‘‘. (کتاب الصلاة، أبواب الجنائز: 195/1، رشيدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 190/235