کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید جو کہ کراچی میں سکونت پذیر تھااورجاویدجو کہ کوئٹہ میں رہ رہا تھا ،بذریعہ عمرو روپے بھجوا کر مطلع کردیا کہ وہ زید کے لئے ان روپوں سے کپڑا خریدکر خود یا کسی کے حوالے کرکے بھجوادے،جاوید نے کپڑا خرید کر کسی کے حوالے کیا جس کے کراچی پہنچنے پر معلوم ہوا کپڑا چوری ہوگیا ہے،اس صورت میں کیا زید وہ جاویدسے روپیہ مانگ سکتا ہے ،یا وہ اپنے روپے اس آدمی سے جس کے ذریعے کپڑا بھیجا گیا ،روپیہ مانگے گا ،یا سارا نقصان زیدکے ذمہ رہے گا؟
صورت مسئولہ میں جو مال ضائع ہوا ہے، یہ زیدکے مال سے شمار ہوگا، اس کا تاوان نہ توجاوید پر ہوگا اور نہ اس شخص پر جو مال لےکر آیا اور جس سے چوری ہوگیا، وہ شخص تو اس لئے کہ وہ امین ہے، اس کے پاس امانت رکھا گیا ہے، اور امانت میں تاوان نہیں ہوتا، اور جاوید اس لئے کہ وہ چونکہ زید کی طرف سے وکیل ہے، اور وکیل پر کوئی تاوان نہیں ہوتا۔لما في الهداية:
’’فإن هلك المبيع في يده قبل حبسه هلك من مال المؤكل‘‘.(كتاب الوكالة،ص:166).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:01/14