امام صاحب کو تنخواہ کے عوض زکوۃ دینے کا حکم

امام صاحب کو تنخواہ کے عوض زکوۃ دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زکوٰۃ لینے پر امامت صحیح ہے یا نہیں یعنی امام کی نہ تنخواہ معلوم ہے نہ کوئی اور رقم، صرف مقتدی زکوٰۃ دیتا ہے اور امام امامت کررہا ہے ،اگر کسی نے امامت کی تو پھر اس کیا حکم ہے؟
وضاحت:امام کو اس کی امامت  کے بدلے زکوٰۃ معاوضے میں دی جاتی ہے، تو یہ امامت درست ہے یا نہیں؟ نیز زکوٰۃ ادا کرنے والے کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر امام کو اس کی تنخواہ کے عوض زکوٰۃ دی جاتی ہے، تو اس سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، البتہ امامت درست ہے، امام کے لئے زکوٰۃ کے علاوہ ماہانہ تنخواہ مقرر کی جائے۔
لما في الدر مع الرد:
’’ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا‘‘.
’’قوله: (وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض‘‘.(كتاب الزكاة، باب المصرف، مطلب في  الحوائج الأصلية: 359/3:رشيدية)
وفي الهندية:
’’ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه وإلا فلا‘‘.(كتاب الزكاة، باب السابع في  المصرف: 413/1:رشيدية)
وفي الرد:
’’وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار‘‘.(كتاب الصلاة، باب الإمامة، مطلب شروط الإمامة الكبرى: 337/2: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:187/216)