کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص اعتکاف مسنون، واجب اور نفلی میں بیٹھتے وقت مجلس علم، عبادت یا مرض وغیرہ کے لئے خروج کا استثناء زبان سے کرلے، تو پھر ان کے لئے خروج درست ہے؟ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، فتاویٰ محمودیہ، فتاویٰ حقانیہ، امداد الفتاویٰ اور خیر الفتاویٰ میں لکھا گیا ہے کہ“اعتکاف مسنون میں اس طرح کی شرط لگانا درست ہے”تو کیا ان فتاویٰ عمل کیا جاسکتا ہے۔
اعتکاف واجب اور نفل میں مرض ،عبادت اور مجلس علم میں حاضری کے لئےخروج کا استثناء کرنا درست ہے،اور ان کے لئے خروج بھی درست ہے،البتہ اعتکاف مسنون میں خروج وغیرہ کا استثناءتو درست ہے،لیکن استثناء کرنے سے اعتکاف “اعتکاف مسنون” نہیں رہے گا، بلکہ نفل ہوجائے گا۔لما في حاشية الطحطاوي على المراقي:
’’وفي التتارخانية عن الحجة لو شرط وقت النذر أن يخرج لعيادة المريض وصلاة الجنازة وحضور مجلس علم جاز ذلك فليحفظ.اهـ .در‘‘.(كتاب الصوم، باب الإعتكاف، ص:702: رشيدية)
وفي الدر مع الرد:
’’وفي التتارخانية عن الحجة لو شرط وقت النذر أن يخرج لعيادة مريض وصلاة جنازة وحضور مجلس علم جاز ذلك فليحفظ‘‘.
’’قوله:( لو شرط) فيه إيماء إلى عدم الاكتفاء بالنية أبو السعود.
قوله:( جاز ذلك) قلت: يشير إليه قوله في الهداية وغيرها عند قوله ولا يخرج إلا لحاجة الإنسان؛ لأنه معلوم وقوعها فلا بد من الخروج فيصير مستثنى اهـ .
والحاصل: أن ما يغلب وقوعه يصير مستثنى حكما وإن لم يشترطه وما لا فلا إلا إذا شرطه‘‘.(كتاب الصوم، باب الإعتكاف:506/3:رشيدية)
(وكذا في التاتار خانية:كتاب الصوم،باب الإعتكاف: 445/3:فاروقية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/38