کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ پاکستان میں ایک کمپنی اخوت کے نام سے بنائی گئی ہے، جو ضرورت مند افراد کو قرضہ دیتی ہے، جسکی تفصیل اس طرح ہے کہ وہ پہلی مرتبہ نام لکھوانے پر(500) لیتی ہے کہ یہ کاغذات وغیرہ کے لیے ہیں، اور پھر اگر کوئی (35000) روپے یا (4000) روپے لینا چاہے تو دے دیتی ہے، لیکن اس کی وصولی ہر مہینے میں (3500) یا (4000) طے کرتی لیتی ہے؟َ
وضاحت:مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اخوت کمپنی قرضہ دینے سے پہلے 500روپے اور آخرمیں بھی 500روپے لیتی ہے،اور مقروض شخص سے ہر ماہ قرضہ کی ادائیگی کے وقت کچھ رقم کی کٹوتی کرتی ہے۔
صورت مسئولہ اگر مبنی بر حقیقت ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا تو مذکورہ کمپنی سے قرضہ لینا درست نہیں ،کیونکہ مذکورہ کمپنی کا ابتدا وانتہا میں اور ہر ماہ قرضہ ادا کرتے ہوئے مقروض شخص سے اضافی رقم لینا یہ سود کےزمرے میں آتا ہے،جوکہ ناجائز ہے۔لما في التنزيل العزيز:
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَْ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾.(سورة البقرة، رقم الآية:278،279).
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾.(سورةآل عمران، رقم الآية: 130)
وفي سنن أبي داؤد:
حدثنا أحمد بن يونس حدثنا زهير حدثنا سماك حدثني عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال:’’لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- آكل الربا وموكله وشاهده وكاتبه‘‘.(كتاب البيوع،باب في آكل الرباوموكله،رقم الحديث:3333،ص:677:دارالسلام)
وفي الرد:
’’(لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص‘‘.(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع: 665/9: رشيدية).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:185/106