کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ والد صاحب اپنے دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ ایک دیہات میں رہائش پذیر تھے، وہاں سیلاب کی وجہ سے سارے مکانات بہہ گئے، تو مجبوراً ان کو ہجرت کرنی پڑی اور دوسرے شہر کا رخ کیا، چونکہ بچے بچیاں ساری شادی شدہ تھیں، تو دو بیٹے اور ایک بیٹی بمعہ اپنے اہل و عیال کے والدین کو لے شہر کی طرف روانہ ہوئے، وہاں جا کر ایک ایکڑ زمین پر بسنے لگے، یہ زمین درحقیقت کسی کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ یہ جگہ دشت و بیابان اور پہاڑیوں میں تھی، جس پر کسی کا قبضہ نہیں تھا، ان کے علاوہ ایک بہن بمعہ اپنے اہل و عیال کے دوسرے شہر ہجرت کر کے وہیں بسنے لگی، والد صاحب اس زمانے میں اپنے ہوش و حواس کھو چکے تھے اور علیل تھے، سو بیٹوں اور ایک بیٹی نے والد کی جائیداد اپنی خواہش کے مطابق تقسیم کی اور وہاں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کیں اور وہیں رہن سہن شروع کیا، البتہ ان سب میں ان کے والد کی رضا مندی شامل نہ تھی، کیونکہ وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھے، زمانہ گزرتا گیا، یہاں تک کہ ان کے والد صاحب کا سایہ ان کے سروں سے اٹھ گیا، اور وہ فوت ہو گئے۔ اس بابت کچھ سوالات ہیں۔
۱…کیا بیٹوں اور بیٹی کا اپنی طرف سے یہ زمین تقسیم کر کے اس پر قبضہ کرنا درست ہے؟
۲…انہوں نے جو مکانات اس زمین پہ بنائے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
۳…نیز یہ زمین والد صاحب کی وراثت شمار ہوگی یا نہیں؟
وضاحت: یہ زمین سرکاری اجازت کے بغیر آباد کی گئی ہے، اور ابھی تک سرکاری اجازت نہیں لی گئی۔
واضح رہے کہ غیر آباد، غیر مملوکہ اور بنجر زمین جس سے مفاد عامہ وابستہ نہ ہو، اگر سرکار کی اجازت کے ساتھ کوئی آباد کرے تو وہ زمین کا مالک سمجھا جائے گا۔
۱…لہذا صورت مسئولہ میں زمین کے جتنے حصے پر بھائی اور بہنوں نے قبضہ کیا ہے، لیکن ابھی تک سرکاری اجازت نہیں لی تو یہ زمین ان کی ملکیت شمار نہیں ہوگی بلکہ سرکار کی اجازت پر موقوف ہوگی، البتہ سرکاری اجازت لینے کے بعد یا اس زمین کے سرکاری کاغذات بنوانے کے بعد یہ زمین ان کی ملکیت مانی جائے گی۔
۲…یہ تعمیرات بھائیوں کی ہی ملکیت سمجھی جائیں گی، اس میں کسی کا کوئی حصہ نہیں۔
۳…یہ زمین جب والد کی ملکیت نہیں، تو اس میں وراثت جاری نہیں ہو گی۔لما في التنویر مع الدر :
’’(إن أذن له الإمام في ذلك) وقالا يملكها بلا إذنه‘‘.
و تحته في الرد :
’’قوله:(وقالا يملكها بلا إذنه) مما يتفرع على الخلاف ما لو أمر الإمام رجلا أن يعمر أرضا ميتة على أن ينتفع بها، ولا يكون له الملك فأحياها لم يملكها عنده، لأن هذا شرط صحيح عند الإمام، وعندهما يملكها ولا اعتبار لهذا الشرط اهـ، ومحل الخلاف: إذا ترك الاستئذان جهلا، أما إذا تركه تهاونا بالإمام كان له أن يستردها زجرا أفاده المكي أي اتفاقا، وقول الإمام: هو المختار ولذا قدمه في الخانية، والملتقى كعادتها وبه أخذ الطحاوي وعليه المتون‘‘.(کتاب أحیاء الأموات: 7/10: رشیدية)
وفي الجوهرة النيرة:
’’فما كان منها عاديا لا مالك له أو كان مملوكا في الإسلام ولا يعرف له مالك بعينه وهو بعيد من القرية بحيث إذا وقف إنسان في أقصى العامر فصاح لم يسمع الصوت منه فهو موات...
قوله:(من أحياه بإذن الإمام ملكه، وإن أحياه بغير إذن الإمام لم يملكه عند أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد يملكه) لقوله عليه السلام {من أحيا أرضا ميتة فهي له} ولأبي حنيفة قوله عليه السلام {ليس للمرء إلا ما طابت به نفس إمامه} ولأنه حق للمسلمين فليس لأحد أن يختص به بدون إذن الإمام كمال بيت المال ثم عند أبي حنيفة إذا لم يملكها بالإحياء وملكه إياها الإمام بعد الإحياء تصير ملكا له والأولى للإمام أن يجعلها له إذا أحياها ولا يستردها منه ، وهذا إذا ترك الاستئذان جهلا أما إذا تركه تهاونا بالإمام كان له أن يستردها زجرا له فإذا تركها له الإمام تركها بعشر أو خراج ‘‘.(کتاب أحیاء الأموات: 86/2: دارالکتب).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی