ائمہ مساجد کو زکوٰۃ دینے کا حکم

Darul Ifta

ائمہ مساجد کو زکوٰۃ دینے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں مساجد میں ائمہ حضرات کو اس شرط پر مقررکیاجاتا ہے کہ ان کو تنخواہ نہیں دیں گے، بلکہ ان سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ آپ کو زکوٰۃ دیں گے، فطرانہ دیں گے اور بقرعید کے موقع پر چرمِ قربانی(یعنی کھال) دیں گے، ائمہ مساجد کا ان چیزوں پر راضی ہو کر ان کوو صول کرنا شرعی نقطہ نظر سے کیسا ہے؟

جواب

ائمہ مساجد کو زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ بطور تنخواہ دینا اور لینا دونوں درست نہیں، اگر کسی نے ان کو زکوٰۃ یا صدقاتِ واجبہ بطور تنخواہ دے دیے تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، اس لیے کہ اگر یہ ائمہ غنی اور صاحبِ نصاب ہیں تو تمام کتبِ فقہ میں تصریح موجود ہے کہ غنی کو زکوٰۃ دینا درست نہیں،اگر صاحبِ نصاب نہ ہوں، تو عدمِ جواز کی وجہ یہ ہے کہ ان کو امامت کے عوض اجرت میں زکوٰۃ و صدقات واجبہ دیے جارہے ہیں، جب کہ زکوٰۃ و صدقات واجبہ کسی کو چیز کے عوض اور اجرت میں دینا جائز نہیں،زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دینے والے کی کوئی منفعت اس مال سے متعلق نہ ہو۔

''لایجوز دفع الزکاۃ إلی من یملک نصابا أي مال کان. (الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع في المصارف: ١/١٨٩،رشیدیۃ)
وفي التنویر: مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ ﷲ تعالی. (تنویر الأبصار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٥٨، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer