آن لائن کاروبار میں مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے بیچنے کا حکم

آن لائن کاروبار میں مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے بیچنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آن لائن کام شروع کرنا چاہتا ہوں، جس کی صورت یہ ہوگی کہ میں اور میرا ساتھی آن لائن کپڑوں وغیرہ دوسری چیزوں کا آرڈر لیا کریں گے اور آگے اس چیز کا آرڈر کردیں گے اور بائع سے یہ کہیں گے کہ وہ یہ چیز براہ راست جو ہمارا مشتری ہے اس کے پاس ہی بذریعہ ٹی سی ایس وغیرہ بھیج دے اور ہمارے پاس نہ بھیجے، کیونکہ اگر وہ پہلے ہمارے پاس بھیجے گا تو چیز مشتری کو مہنگی پڑے گی۔
پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ کام شرعا درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ بعض علماء سے ہم نے یہ سنا ہے کہ جب تک مبیع پر بائع کا قبضہ نہ ہو اس وقت تک اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے خدانخواستہ کہیں یہ اس کے تحت تو داخل نہیں؟ داخل ہونے کی صورت میں اس کی صحیح اور جائز صورت کیا ہوگی؟
نوٹ:مشتری کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ ہم کہیں اور سے لے کر اس کو دے رہے ہیں وہ اپنے گمان میں براہ راست ہم ہی سے  خریدو فروخت کا معاملہ کرے گا،لیکن اگر بتانا ضروری ہے تو براہ مہربانی اس کی وضاحت بھی کردیجئے گا۔

جواب

واضح رہے کہ جب تک مبیع پر بائع کا قبضہ نہ ہوا ہو اس وقت تک اس کو آگے بیچنا جائز نہیں ،لہذا صورت مسئولہ میں بیچنے والا چونکہ مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے اس کو آگے بیچ رہا ہے اس وجہ سے مذکورہ عقد درست نہیں ہوگا،البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہوگی کہ یہ بندہ (آرڈر لینے والا )بائع کی طرف سے بیچنے کا وکیل بن جائے۔
لما في صحيح مسلم:
’’حدثنا يحيى بن يحيى:حدثنا حماد بن زيد:ح:وحدثنا أبو الربيع العتكي وقتيبة قالا:حدثنا حماد عن عمرو بن دينار،عن طاوس،عن بن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:((من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه)). قال ابن عباس:وأحسب كل شيء مثله‘‘.(كتاب البيوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض:662:دارالسلام).
وفي البحر الرائق:
’’صح بيع العقار قبل قبضه لا بيع المنقول.(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في التصرف في المبيع: 193/6:رشيدية).
وفي مجمع الأنهر
’’(لا يصح بيع المنقول قبل قبضه)لنهيه عليه الصلاة والسلام عن بيع ما لم يقبض،ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك بخلاف هبته‘‘.(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل: 113/3:الغفارية).
وفي الهداية:
’’والوكيل بالبيع يجوز بيعه بالقليل والكثير والعرض عند أبي حنيفة وقالا لا يجوز بيعه بنقصان لا يتغابن الناس فيه‘‘.(كتاب الوكالة، فصل في البيع: 384/3:دار الدقاق).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:186/169