آب زم زم دور دراز ملکوں میں لے جانا اور ہدیہ کرنا

آب زم زم دور دراز ملکوں میں لے جانا اور ہدیہ کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آب زمزم کو برتن وغیرہ میں بھر کر دور دراز ملکوں میں لےجانا کسی حدیث سے ثابت ہے؟ کیا آب زمزم کو برتن وغیرہ میں بھر کر آدمی کا اپنے گھر لے جانا اور پھر تبرکاً اس کو شفاء کے لیے استعمال کرنا اوراسی طرح اس کو ہدیہ دینا وغیرہ حضورﷺ یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے؟

جواب

آب زمزم کو تبرکاً پینا، اسی طرح برتن وغیرہ میں بھر کر لانا اور پھر کسی کو تبرکاً ہدیہ پیش کرنا، یہ سب مستحب ہے، اسی طرح شفاء کے لیے استعمال کرنا بھی، یہ سب حضورﷺ سے اور ان کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے، جیسا کہ فقہ حنفی کی  کتابوں میں اس کا تذکرہ ہے۔
لمافي المرقاة:
’’وأما نقل ماء زمزم للتبرك به فمندوب اتفاقا؛ لأنه ﷺ استهداه وهو بالمدينة من سهيل ابن عمر عام الحديبية فبعث إليه بمزادتين‘‘.(رواه البيهقي)
’’قال وفي رواية: أنه ﷺ حمله في الأوادي والقرب وكان يصب على المريض ويستشفيهم به. وصح عن عائشة رضي الله عنها كانت تنقله وتخبر أنه ﷺ كان ينقله‘‘.(كتاب المناسك، باب حرم مكة حرمها الله تعالى: 598/5، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:05/244